’’مگرمچھ‘‘ سے تعبیر کیا کرتے تھے، جو پہلی بات کو نگل جاتا ہے، اس لیے ان کی نثر اگر مگر اور لیکن ویکن سے پاک ہے۔ وہ اس بات کا اظہار بھی کیا کرتے تھے کہ انھیں شعر سے کوئی علاقہ نہیں ۔ زیرِ نظر مسودے میں بھی کہیں انھوں نے یہ بات لکھی ہے۔ یہ بات اردو اور فارسی شاعری کی حد تک درست ہو سکتی ہے، لیکن جہاں تک پنجابی کا تعلق ہے تو انھیں پنجابی کے بے شمار لوک گیت، ضرب الامثال اور ہیر وارث شاہ کے اشعار نوکِ زبان رہتے تھے اور وہ گفتگو میں انھیں بڑی فراوانی سے استعمال کرتے تھے، جس سے ان کی شعر شناسی کا اندازہ ہوتا تھا۔ اس کتاب میں جہاں انھوں نے بڑی بے تکلفی سے ان کے اصل نام محمد یوسف اور قلمی نام مجاہد الحسینی میں مقابلہ کروایا ہے، اس مقابلے بلکہ معارضے میں ، جس خوب صورتی سے غالب کا ۱۸۴۷ء کے بعد کی ایک غزل(مشمولہ نسخہ لاہور ۱۸۵۲ء)کا شعر نقل کیا ہے، دیکھیے اس شعر نے کیا رنگ باندھا ہے۔ ؎ یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا کتاب میں شامل ان شخصیات میں ، جن سے تعلق کی مسرت راقم کو بھی رہی، مشفق خواجہ صاحب بھی شامل ہیں ۔ خواجہ صاحب پر لکھا جانے والا مضمون پڑھ کر وہ دن یاد آگئے، جب اوّل اوّل راقم نے ان دونوں بزرگوں کا باہم رابطہ کروایا تھا، جو بعد ازاں اپنے وقت کے دو نامور اہلِ علم کی گراں قدر دوستی میں ڈھل گیا اور میرے لیے وہ دن کس قدر خوشی کا تھا، جب بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مشفق خواجہ رحمہ اللہ پر مضمون باندھا اور راقم کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا: ’’میں جناب مشفق خواجہ رحمہ اللہ سے متعلق مضمون لکھ رہا ہوں ، جس میں ظاہر ہے کہ ان کے اشعار بھی درج ہوں گے، میرے پاس ان کا کوئی مجموعہ کلام نہیں ہے، اس کے لیے آپ کے بابِ علم پر دستک دے رہا ہوں ۔ مہربانی فرما کر اُن کے چند اشعار لکھ کر مجھے ضرور بھجوایئے۔ نیز ان کی تصانیف و تراجم سے مطلع کیجیے، دو سال سے ان سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ خط کتابت کا سلسلہ بھی کچھ عرصے سے منقطع ہے۔ معلوم نہیں وہ کس حال میں ہیں ۔ میں چند روز تک انھیں ان شاء اللہ خط لکھوں گا، لیکن مضمون کی اطلاع نہیں دینا چاہتا، جس کتاب میں چھپے گا، وہ کتاب با صد ادب ان کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔‘‘ یہ خط ۲۰؍ مئی ۲۰۰۲ء کو لکھا گیا، اس کے بعد ۲۶؍ اگست ۲۰۰۲ء کے گرامی نامے کے ساتھ ان کا یہ مضمون منسلک ہو کر نظر نواز ہوا، گویا یہ مضمون لکھنے میں انھیں تین ماہ کا عرصہ لگا، مضمون بھجواتے ہوئے انھوں نے راقم کو لکھا: ’’مشفق خواجہ صاحب پر میں نے اِدھر اُدھر کی اکھڑی اکھڑی سی جو چند باتیں لکھی ہیں ، وہ ارسالِ خدمت ہیں ۔ آپ اچھی طرح پڑھ لیجیے۔ اگر اُن میں کہیں اضافے کی ضرورت ہے تو کر دیجیے۔ اگر کوئی بات غلط ہے یا سوئے ادب کا پہلو لیے ہوئے ہے تو حذف کر دیجیے۔ اس کے متعلق مجھے اپنی رائے بھی دیجیے۔ اگر مناسب سمجھیں تو اسے دیکھنے اور تصحیح یا تغلیط کرانے کے لیے خواجہ صاحب کی خدمت میں بھجوا دیا |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |