میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ شریک تھا اور ہم نے وہیں ایک دہلیز پر بیٹھ کر نوادر میں شامل علامہ اقبال رحمہ اللہ کے خطوط کی خواندگی کی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ میاں عبدالعزیز رحمہ اللہ کے نام ہندوستان کے مشاہیر کے پینتیس ہزار خطوط ہیں ، جو اُن کے اخلاف کے پاس محفوظ ہیں اور ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ ان کی فہرست سازی اور بعد ازاں ان کی اشاعت کے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے، لیکن پھر آں قدح بشکست … اس سلسلے میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ ہم ایسے جدوجہد آزادی کے طالب علموں کے لیے اس ذخیرے کی خبر ملنا ایک بڑا نکشاف تھا۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے ہندوستانی مشاہیر قائدِ اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، گاندھی جی، مولانا ابو الکلام آزاد، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ، مولانا احمد سعید دہلوی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، نواب زادہ لیاقت علی خان، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پنڈت موتی لال نہرو، پنڈت جواہر لال نہرو، سروجنی نائیڈو، پنڈت مدن موہن مالویہ، سردار ولبھ بھائی پٹیل کون تھا جو میاں عبدالعزیز صاحب مالواڈہ کے احباب کی فہرست میں شامل نہیں تھا اور اس ذخیرئہ خطوط میں جس کا کوئی نقش موجود نہ تھا۔ اس ذخیرے کی خبر ملنے کے بعد محض نمایش دیکھ لینے سے کہاں تشفی ہوتی تھی۔ راقم ایک روز میاں عبدالعزیز صاحب کے خلف میاں عبدالمعید صاحب کے پاس پہنچ گیا، جو لاہور چھاؤنی میں اسد جان روڈ پر رہتے تھے۔ خطوط سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور مولانا ظفر علی خان کے خطوط کی تلاش میں جو جدوجہد ان دنوں کر رہا تھا، اس سے انھیں آگاہ کر کے ان کے پاس محفوظ ذخیرے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ میاں عبدالمعید ایک وضع دار اور خلیق شخص تھے، انھوں نے راقم کی کم سنی کے با وصف از راہِ کرم اسے یہ ذخیرہ دیکھنے کی اجازت دے دی، ذخیرہ اتنا بڑا اور اس طور منتشر و نا مرتب تھا کہ اس میں سے کسی خاص شخص کا خط تلاش کرنا ممکن نہ ہو سکا، البتہ جو چیزیں سامنے آتی جاتی تھیں ، ان میں سے اپنی دل چسپی کے خطوط الگ کرتا رہا اور بعد میں میاں صاحب کی اجازت سے اُن سب کے عکس بنوا لیے گئے۔ اب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی زیرِ نظر کتاب کا مسودہ پڑھتے ہوئے معلوم ہوا کہ ۲؍ مارچ ۲۰۰۰ء کو میاں عبدالمعید صاحب وفات پا گئے اور اُن کے بعد کسی نے اس عظیم الشان تاریخی سرمائے کو محفوظ نہیں رکھا۔ إنا ﷲ و إنا إلیہ راجعون۔ بھٹی صاحب ایک عمر تک صحافت کی بادیہ پیمائی کرتے رہے، دیکھا گیا ہے کہ اس کوچے کے صحرا نورد، لفظوں کے استعمال میں خاصے آزاد ہو جاتے ہیں ، لیکن بھٹی صاحب اس معاملے میں محتاط تھے، شاید یہ ان کی شخصیت کی علمی جہت کا نتیجہ تھا۔ علمی جہت کا نتیجہ ایک دوسری صورت میں بھی نکل سکتا تھا، لیکن علمِ فقہ پر کام کرنے کے باوصف ان کی نثر فقیہانہ رنگ کی حامل نہیں تھی۔ ان کی عبارت میں اغلاق یا اہمال کی جگہ صفائی اور سلاست ملتی ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ اُردو زبان میں ’’لیکن‘‘ ایک جھاڑو کا نام ہے، جو ماقبل کے سارے کلام کو صاف کر دیتی ہے، اسی طرح وہ ’’مگر‘‘ کو |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |