Maktaba Wahhabi

432 - 924
فرمایا: سردار صاحب آج کی تقریر میں نے آپ کو سنانی ہے، لہٰذا آپ واپس آ جائیں ۔ سردار عبدالقیوم رحمہ اللہ واپس اسٹیج پر آ گئے تو علامہ صاحب رحمہ اللہ نے جنگِ آزادی میں انگریز کے خلاف اہلِ حدیث کی جدوجہد اور قربانیوں کو بیان کیا اور تحریکِ پاکستان میں اہلِ حدیث کی خدمات کا بالتفصیل تذکرہ کیا کہ حق ادا کر دیا۔ علامہ صاحب رحمہ اللہ کے خطاب کے بعد مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری دیوبندی رحمہ اللہ مائک پر آئے اور فرمانے لگے: علامہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے، بالکل صحیح اور درست ہے۔ اگر اسلام کی تاریخ سے اہلِ حدیث کی خدمات کو نکال دیا جائے تو اسلام کے پلے کچھ نہیں رہتا۔ یہ ہے جراَت، حقِ نمایندگی اور اپنی جماعت کی ترجمانی۔ اسی طرح ربوہ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی اس تاریخی تقریر کی گونج اب تک فضا میں موجود ہے، جب آپ نے دیو بندیوں کے اسٹیج پر عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت فرماتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کے لیے اہلِ حدیث کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ کیا تو یوں تھا کہ جیسے سارے دیوبندیوں کو چپ لگ گئی ہو اور پھر اس کے بعد انھوں نے علامہ صاحب رحمہ اللہ کو کبھی دعوت نہ دی تھی، حالاں کہ ان کا دعویٰ تھا اور ہے کہ یہ کانفرنس مشترکہ ہوتی ہے۔ بہر حال مجھے ان مثالوں سے صرف اپنے ان مقتدر علما و اصحابِ جبہ و دستار سے عرض کرنا مقصود ہے جو محرم الحرام یا ربیع الاول کے سلسلے میں منعقدہ امن کمیٹیوں میں شامل و شریک ہوتے ہیں یا صوبائی و قومی سطح پر کسی سیاسی یا انتظامی فورم پر انھیں اہلِ حدیث کی نمایندگی کا موقعے ملتا ہے کہ انھیں ببانگِ دہل ڈنکے کی چوٹ پر اپنے مسلک و عقیدے کا اظہار کرنا چاہیے، کسی قسم کی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ان کا فرض بھی ہے اور اُن کے لیے عزت و وقار کی علامت بھی۔ اسی طرح مولانا عبدالروف جھنڈا نگری رحمہ اللہ والا مضمون بھی اپنے اندر بہت سی نصیحتیں سموئے ہوئے ہے، جس سے طلبا، اساتذہ، خطبا، علما اور اصحابِ علم و اربابِ مدارس بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں ، خصوصاً ان کے مدرسے کے انہدام اور دوبارہ تعمیر کا واقعہ جو بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے زیر تذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر ۳۸۴ تا ۳۹۰ پر تفصیل سے بیان کیا ہے، اس میں ان کا جذبہ دینی اور اپنے ادارے سے محبت اور اس کے لیے قربانی کا جذبہ پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اور مدد کے بہت سے مظاہر قارئین کے سامنے آ جاتے ہیں ۔ طلبائے کرام کے لیے بھی بہت سے مضامین میں نصیحت موجود ہے، صرف ایک مضمون سے مختصر اً قتباس نقل کرتا ہوں ۔ ماضی قریب کے علمائے اہلِ حدیث کی فہرست میں سید مولا بخش کوموی رحمہ اللہ کا نام بہت نمایاں ہے۔ سید صاحب بہت بڑے عالم، فاضل اور متقی پرہیز گار اور بڑے منجھے ہوئے درد دل رکھنے والے شفیق استاد تھے، ان کے حصولِ علم کے متعلق مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۰۸ پر رقم طراز ہیں : ’’سید مولا بخش حصولِ علم کے لیے نہایت بے تاب تھے۔ لیکن انھیں اس کا موقع نہیں مل رہا تھا، وہ نوجوانی کی حدوں کو چھو رہے تھے، مگر بے علم تھے اور دل میں اس کے حصول کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ
Flag Counter