Maktaba Wahhabi

431 - 924
جائیں اور دیوبندی اور دوسرے مکاتبِ فکر کی وضاحت اس کے حاشیے پر کر دی جائے۔ بالآخر بات اس پر ختم ہوئی کہ ہر مکتبہ فکر کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے مسلک کے مطابق اپنی کتابیں تصنیف کر کے داخل نصاب کرے۔(ص: ۲۸۲) اس واقعے میں ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو اجتماعی کمیٹیوں یا مشاورتی مجلسوں میں شامل و شریک ہوتے ہیں ، لیکن دوسروں کی ہاں میں ہاں ملا کر صرف تعلق داری یا کی خاطر اپنے مسلکی نظریات اور جماعتی مفادات قربان کر کے گھر آ جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ، میں یہ کہنا توچاہتا تھا، لیکن میں نے بھری مجلس میں مناسب نہیں سمجھا۔ ارے اللہ کے بندو! جن کی نمایندگی کے لیے تم گئے ہو، اگر ان کی نمایندگی نہیں کرنی، ان کے مسلک و منہج کی ترجمانی نہیں کرنی تو پھر آپ کو یہ حق کیسے مل گیا کہ آپ اہلِ حدیث جماعت کے کوٹے سے کسی بھی مجلس یا کمیٹی کے رکن اور ممبر بنیں یا پھر وقتی اور عارضی طور پر ہی کسی مشترکہ کانفرنس یا جلسے میں شریک ہوں ۔ آپ کا حق بنتا ہے کہ آپ اپنے ذاتی تعلقات بنانے کی فکر نہ کریں اور اپنے ذاتی یا خاندانی مفادات کو مدنظر نہ رکھیں ، بلکہ مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی نمایندگی کا حق ادا کریں ۔ مولانا املوی رحمہ اللہ ہی کا ایک اور واقعہ مولانا آزاد رحمانی رحمہ اللہ کے حوالے سے مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں : ’’مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے انتقال پر بنا رس میں ایک تعزیتی جلسہ ہوا۔ صدر مولانا عبدالمتین صاحب مرحوم رئیس بنارس تھے۔ مقررین میں ہر طبقہ اور ہر خیال کے لوگ موجود تھے، اس لیے یہ جلسہ ہر فرقے کا نمایندہ جلسہ تھا۔ ایک مقرر نے مولانا حفظ الرحمن کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے جنگِ آزادی سے متعلق دار العلوم دیوبند کی طرف کچھ غلط باتوں کا انتساب کیا، اس کے بعد مولانا کی باری تھی۔ آپ نے جنگِ آزادی کی پوری تاریخ ادھیڑ کر رکھ دی اور اچھی طرح واضح کر دیا کہ فرطِ عقیدت میں لوگ کتنی غلط بیانیاں کرتے ہیں ۔ آپ کی تقریر سے جلسے کی فضا بدل گئی اور لوگوں کو جنگِ آزادی کی صحیح تاریخ معلوم ہو گئی۔‘‘(ص: ۲۸۳) یہ ہوتی ہے نمایندگی اور اپنی قوم یا جماعت کی ترجمانی ۔رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ، و جزاہ عن سائر أہل الحدیث۔ اس واقعے کی مناسبت سے مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ گجرات میں مولانا عنایت اللہ شاہ گجراتی رحمہ اللہ کی مسجد میں اہلِ حدیث اور دیوبندیوں کا مشترکہ جلسہ تھا، جس میں آزاد کشمیر کے اس وقت کے صدر سردار عبدالقیوم خان رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔ سیاسی لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے کہ جس کی مجلس میں جاتے ہیں ، ان کے قصیدے پڑھنے اور جائز و ناجائز تعریفیں شروع کر دیتے ہیں ۔ سردار عبدالقیوم خان رحمہ اللہ نے بھی یہی کیا کہ علمائے دیوبند کی جنگِ آزادی اور تحریکِ پاکستان میں خدمات کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ ان کے بعد شہیدِ اسلام، بطلِ حریت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نے خطاب شروع کیا تو سردار عبدالقیوم خان رحمہ اللہ اٹھ کر جانے لگے، علامہ صاحب رحمہ اللہ نے خطاب روک کر
Flag Counter