Maktaba Wahhabi

236 - 924
پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے انھیں حیرت ہوئی۔ مَیں تین مرتبہ ان سے ملاقات کے لیے ساندے(لاہور)گیا۔ دو دفعہ ملاقات میں کامیاب ہوا۔ ایک مرتبہ وہ عمرے کے لیے تشریف لے جا چکے تھے۔ مجھے اس کی خبر نہ تھی۔ بہر حال میں عزیزی حافظ حسان بھٹی سے ملا اور چند علما کے حالاتِ زندگی اور بعض کتابیں اس کی تحویل میں دے کر واپس آگیا۔ راقم نے ان کے ارشاد سے متعدد علمائے اہلِ حدیث کے کوائفِ حیات لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیے۔ ان میں سے بعض مضامین تو وہ اصلاح کے بعد ’’الاعتصام‘‘ میں شائع کرا دیتے تھے اور کسی کو وہ اپنی مستقل تصانیف میں جگہ دے دیتے تھے، ان کا اصلاح کردہ مضمون جب شائع ہوتا، تو مجھے اپنی غلطیاں نوٹ کرنے میں بہت آسانی ہو جاتی تھی۔ اسی طرح فیصل آباد میں مولانا محمد رمضان یوسف سلفی کے ہاں (رحمانیہ دارالکتب، امین پور بازار میں )مولانا مرحوم سے کئی نشستیں ہوتیں ۔ ان میں علاقے کے متعدد اہلِ علم شامل ہوتے تھے، بالخصوص علی ارشد چودھری مرحوم اور محترم حافظ فاروق الرحمن یزدانی صاحب۔ یوں مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ فللّٰہ الحمد۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے جنوری ۲۰۰۳ء میں اپنی کتاب ’’صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ۔۔ حالات، خدمات، آثار‘‘ مکمل کرلی تھی۔ اس کے بعد یہ کتاب انھوں نے نظر ثانی کے لیے مولانا عبدالقادر ندوی رحمہ اللہ کو دے دی۔ کتاب کا کمپوز شدہ مسودہ ان سے گم ہو گیا اور ناشر کے کمپیوٹر میں وائرس آ جانے کی وجہ سے سافٹ کاپی بھی ضائع ہو گئی۔ اب وہ تین صد صفحات پر مشتمل عرق ریزی سے تصنیف کی گئی کتاب کے مسودے سے محروم ہو چکے تھے۔ خیر! مصنف علام کے صبر، حوصلہ اور استقامت کی داد دیجیے کہ کتاب دوبارہ تحریر کر دی اور ضخامت بھی پہلے سے ڈیڑھ گنا ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایک خط ضائع ہو جائے تو کئی روز تک طبیعت دوبارہ لکھنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ یہ تو سیکڑوں صفحات تھے، جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ لکھ دیے۔ مولانا مرحوم نے اپنی نگارشات کو کبھی حرفِ آخر نہیں سمجھا۔ انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھا ہے: ’’میں اپنی کسی بات کو حرف آخر نہیں سمجھتا۔‘‘(گزر گئی گزران، ص: ۴۶) اس سلسلے میں انھوں نے مجھے اپنی کتاب ’’صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ‘‘بغور دیکھنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد راقم نے جو کچھ ان کی خدمت میں پیش کیا، اس کا کچھ حصہ کتاب مذکورہ کے تیسرے اِڈیشن میں انھوں نے شائع کر دیا۔ یہ اِڈیشن ۲۰۱۵ء میں نکلا ہے۔ اس کے صفحہ ۴۴۷ سے آخر تک انھوں نے راقم کی تحریر کو جگہ دے کر اسے قبولیت کی سندِ افتخار عطا کر دی ہے۔ کتاب کے آخر میں ایک خط کا عکس چھپا ہے۔ یہ خط صوفی محمد عبداللہ وزیر آبادی رحمہ اللہ کی طرف سے ’’بخدمت جناب محمدیعقوب و عطا محمد صاحبان‘‘ کے نام ہے۔ محمد یعقوب میرے دادا تھے۔ مولانا حکیم محمد یعقوب خاں اور عطا محمد میرے پردادا تھے۔ شمس الحکماء حکیم مولوی عطا محمد خاں ۔ خط میں ’’عبدالرشید‘‘ کا ذکر بھی ہے۔ یہ میرے دادا کے بڑے بھائی تھے اور میرے اولین استاد۔
Flag Counter