۳۰؍ مئی ۱۹۶۵ء سے ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کی علمی اور معیاری مطبوعات میں اپنے رفیق مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی رفاقت میں تحقیق کا کام بتیس(۳۲)سال کرنے کا اعزاز حاصل کیا، اس کے علاوہ علمی مجلہ ’’المعارف‘‘ لاہور کی ۲۲ سال تک ادارت سنبھالنے کا بھی اعزاز حاصل کیا، جہاں سے مارچ ۱۹۹۶ء کو ریٹائر ہوئے۔ کچھ عرصہ ہفت روزہ ’’توحید‘‘ اور سہ روزہ ’’منہاج‘‘ کے مدیر مکرم بھی رہے۔ جہاں رہے وہاں علم و ادب کی خدمت کا حق ادا کیا، کبھی قلم و قرطاس سے رشتہ منقطع نہ کیا۔ یہ ان کی زندگی کا عظیم کارنامہ تھا کہ آپ نے بر صغیر کے علمائے عظام و فقہائے کرام کے سر بستہ حالاتِ زندگی اور ان کے علمی کارہائے نمایاں کے علاوہ اپنی چالیس کے قریب تصنیفات و تالیفات کے پچاس ہزار سے زائد صفحات قلم بند کر کے ایک مثال قائم کی، ان کے تحریر کردہ سوانحی خاکے اس قدر خوبصورتی، دلکشی اور جاذبیت سے بھر پور ہیں کہ آپ ان شخصیات کے علمی، ادبی، سیاسی، سماجی اور معاشی و معاشرتی زندگی کا جیسے سامنا کر رہے ہوں ، مزید یہ کہ فاضل مصنف زیر بحث شخصیات کے حالات و واقعات اور کوائف تک ہی محدود نہیں رہتے، بلکہ ان کی اولاد، احفاد، اعزہ، اقربا، متعلقین ومعاصرین کی بھی جزئیات کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے جاتے ہیں ، مزید کہ ان کی تحریر حشو و زوائد سے پاک ہوتی ہے، اسی انداز سے آپ نے ہمارے علمائے کرام، اکابرِ اُمت ہستیوں کی درخشندہ زندگیوں کو بے حد خوبصورت اور سحر انگیز اسلوب میں تحریر کر کے آنیوالی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اپنوں اور غیروں کو کھلے دل سے دادِ تحسین دینے میں بھی بڑے فیاض واقع ہوئے ہیں ، چونکہ وہ کسی سے بھی بغض وکینہ نہیں رکھتے تھے، اس لیے آپ نے قرونِ اولیٰ سے عہدِ حاضر تک تین ہزار سے بھی زائد علمائے کرام کے تذکرے اورتراجم تحریر فرما کر مثال قائم کی ہے۔ اے تو مجموعہ خوبی بچہ نامت خوانم آپ بے حد وسیع مطالعہ کے مالک تھے، نہ صرف اپنے عصر کے معروف مجلات، رسائل وجرائد کا مطالعہ کیا کرتے، بلکہ ہر اچھی کتاب پڑھنے میں دیر نہ لگاتے تھے۔خصوصاً ان کو فن سوانح نگاری، خاکہ نویسی اور تاریخ سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ اردو ادب وفن پر ان کی گرفت تھی۔ کسی موضوع پر جب بھی قلم اٹھاتے تو برسوں ماضی کا واقعہ جس وقار، سنجیدگی اور شائستگی سے جزئیات کے ساتھ قلمبند کرتے جاتے، وہ ان ہی کاخاصا تھا۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ قوتِ حافظہ، وسیعِ مطالعہ، وسعتِ نظر، اعتدال پسندی، علمی وجاہت، محبوب شخصیت، درویش صفت، سادہ مزاج، روشن فکر، درد مند دل، متواضع، بذلہ سنج، خوش خلق اور اعلیٰ ظرف مرد جلیل تھے۔ان کی انشا پردازی کا رنگ ڈھنگ انتہائی دل آویز تھا، لوگ انھیں پڑھتے اور سر دھنتے تھے، چونکہ آپ تاریخ کی باریکیوں پربھی تنقیدی نگاہ رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے تاریخ، سیرت، سوانح، تذکرہ اور خاکہ نگاری پر لکھنا شروع کیا تو ان کا یہ تخلیقی |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |