اصحابِ علم و فضل اور مشائخ کرام جو ابھی موجود ہیں ، ان کے علم وفضل سے فیض یاب ہونے کی کوشش کریں اور ان کی زندگی میں ان کی قدر کرنا سیکھیں ۔ چونکہ: ہوا کے دوش پے رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی؟ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی سادگی، سچائی، وضع داری، خوش اخلاقی اور علمی سرفرازی نے ایک جہان کو متاثر کیا تھا، ان کے اچانک بچھڑ جانے کے بعد یوں لگتا ہے کہ ہم کسی دشت بے امان میں تنہا رہ گئے ہوں ۔ مولانا مرحوم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ عمر رسیدگی، ضعف، ثقلِ سماعت کے باوجود نہ صرف فون، بلکہ خط کتابت کا بھی بڑی باقاعدگی اور محبت و خلوص بھرے انداز میں جواب دیا کرتے تھے، وہ صاحبِ عزیمت اور ایک صدی کی خود تاریخ تھے، انھوں نے اپنی پوری زندگی، اپنی توانائیاں علم وادب، تاریخ و ثقافت، تربیت و اصلاح اور جماعت اہلِ حدیث کی مفصل تاریخ مرتب کرنے میں صرف کر دیں ۔ یہ ایک بڑی سعادت ہے، اللہ جسے چاہے عنایت فرمائے۔ آپ بیک وقت مورخ، مفسر، مصلح، مترجم، مصنف، خطیب، مدرس اور مختلف جرائد کے مدیر مکرم رہے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے عجیب طبیعت پائی تھی۔ ان میں کبھی غرور، تکبر، نخوت و خشونت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی، وہ حقیقی معنی میں قرونِ اولیٰ کے رفیقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس نظر آتے تھے۔ روایتی علما کی طرح نہ تو طبیعت میں یبوست سے ان کا خمیر اٹھا تھا اور نہ ہی اپنے اوپر خود ساختہ مسکنت و عاجزی طاری کیے رکھنے کے قائل تھے۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے طبیعت میں حلم، مزاج میں انکساری، زبان میں مٹھاس اور صلہ رحمی، ہمدردی کے قائل تھے۔ آپ ادب و دین کا مرقع، قرآنِ عظیم کے شائق، حدیث کے شیدا، فقہ، اصولِ فقہ اور تاریخ فقہ کے نباض تھے۔ زبان و بیان میں پیچ، نہ قلم میں خم، چہرہ مہرہ سادگی و سعادت، شرافت و دیانت کی دل آویز داستان، کم سخن، کم آمیز، کم خوراک، عیب بینی و نکتہ چینی سے بیزار، مرنجان مرنج، عمر عزیز کہولت کی منزل میں بھی بے حد مثالی، معیاری مصنف، لائق مرتب، ان کے نزدیک ہر چیز کی ایک ہی ترازو تھی، قرآنِ مجید، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اسوۂ حسنہ، سیرتِ صحابہ اور علمائے اسلاف کا فہم و تدبر۔ بلاشبہہ وہ اپنے وقت کے قلم کے فرماں روا تھے۔ ان کی سادگی، سچائی، سنجیدگی نام و نمود سے نفرت کا اندازہ خود ان کی اپنی آپ بیتی ’’گزر گئی گزران‘‘ کے مطالعے سے بہ خوبی لگا سکتے ہیں ۔ وہ جب بھی لکھتے تو یوں محسوس ہوتا کہ گویا زباں و بیاں کے ساتھ قلم بھی ان کی باندی ہو۔ الفاظ، مطالب، معانی، جملے، استعارے، ضرب الامثال، ان کے سامنے دست بستہ نظر آتے۔ قدرت نے انھیں غیر معمولی دل و دماغ عطا کیے تھے۔ آخر یہ ایک عظیم عہد اور حکایت بھی اختتام پذیر ہوئی۔(قدرے تبدیلی پر معذرت) زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمیں سو گئے داستان لکھتے لکھتے |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |