Maktaba Wahhabi

42 - 135
یہاں سے ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ امام ابن مجاہد رحمہ اللہ نے اپنی دینی و علمی شخصیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کام کی ادائیگی کا بیڑا اٹھایا۔ میرا خیال ہے کہ ہم اس سے یہ بھی سمجھ سکتے ہیں، جو آپ سے روایت کیا گیا ہے کہ ایک آدمی نے آپ سے سوال کیا: آپ اپنے لیے کوئی حرف منتخب کیوں نہیں کرتے، جس پر آپ عمل کریں۔ تو انہوں نے فرمایا: ’’ہم متقدمین کے حروف کو حفظ کرنے کے زیادہ ضرورت مند ہیں، بجائے اس کے کہ ہم کوئی نیا حرف منتخب کریں اور بعد والے اس کی تلاوت کرتے رہیں۔‘‘[1] میرے ذکر کردہ قول کی تائید ابو الفتح ابن جنی رحمہ اللہ کے کلام سے بھی ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں: ’’امام ابن مجاہد رحمہ اللہ نے قراءات قرآنیہ کو ان کے مصادر کی طرف لوٹا دیا ہے اور ان کے چشمے کو نکھار کر دو اقسام پر تقسیم کر دیا ہے۔ ایک قسم وہ ہے جس پر اکثر قرائے امصار جمع ہیں، اور اسی قسم کو امام ابوبکر احمد بن موسیٰ بن مجاہد رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب ’’قراءات السبعۃ‘‘ میں جگہ دی ہے۔ اور امام ابن مجاہد رحمہ اللہ اپنی شہرت کے سبب ان کی تحدید سے مستغنی ہیں۔ اور دوسری قسم ان قراءات سبعہ کے علاوہ قراءات کی ہے، جن کو ہمارے زمانے کے اہل علم شاذ کا نام دیتے ہیں، یعنی مذکورہ قرائے سبعہ کی قراءات سے خارج قراءات۔‘‘[2] پھر فرماتے ہیں کہ ہم قراءات شاذہ کی تلاوت اس لیے نہیں کرتے، تاکہ وہ لوگوں میں عام نہ ہو جائیں۔[3] میرے خیال میں یہاں ایک دوسرا سبب بھی ہے جس کا بھی کچھ اثر ہے۔ قراءات سبعہ کی اس علمی شہرت میں اور وہ ابن مجاہد کا قراءات شاذۃ کو الگ تالیف کرنا ہے۔
Flag Counter