Maktaba Wahhabi

19 - 158
سے بھی گفتگوکرتا۔مجھے ان سب کی یاد بہت ستانے لگی تھی۔لیکن آہ! مجھے سب سے زیاد ہ سالم کی یاد آتی تھی۔مجھے اس کی آواز سننے کی سخت تمنّا تھی۔صرف اکیلا وہی تھا کہ جس نے جب سے میں سفر پر نکلا تھا، تب سے میرے ساتھ بات نہیں کی تھی۔ میرے فون کرنے پر کبھی وہ مدرسے میں ہوتا تو کبھی مسجد میں ہوا کرتا تھا۔میں نے جب بھی سالم سے ملنے اور بات کرنے کی تمنا و شوق کا اظہار کیا تو میری بیوی فرحت ومسرّت سے کھِل اٹھتی اور خوشی کے جذبات سے مغلوب ہو کر اس سے ہنسی پھوٹ پھوٹ پڑتی۔سوائے میرے آخری فون پر۔اس مرتبہ میں نے اس کی متوقع ہنسی کی آواز نہیں سنی۔اس کی آوازکچھ بدلی بدلی سی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ سالم کو میرا سلام دینا۔اس نے کہا:ان شاء اللہ۔اور پھر وہ خاموش ہوگئی۔بالآخر میں اپنا سفر مکمل کرکے گھر واپس لوٹ آیا۔میں نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی۔اور دل ہی دل میں یہ تمنّا لیے ہوئے تھا کہ کاش دروازہ کھولنے کے لیے سالم آئے۔ لیکن دروازہ کھولنے والا میرا بیٹا خالد تھا، جس کی عمر ابھی چار سال بھی نہیں ہوئی تھی۔میں نے اسے اپنی بانہوں میں لپٹا لیا اور وہ خوشی سے ابو، ابو چلّائے جا رہا تھا۔پتا نہیں کہ گھر میں داخل ہونے کے بعد میں اپنے دل میں گھٹن سی کیوں محسوس کرنے لگا؟ میں نے شیطان کے شرّ سے اللہ کی پناہ طلب کی۔اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھا۔اتنے میں میری اہلیہ میری طرف بڑھتی آرہی تھی۔اس کا چہرہ کچھ بدلا بدلا سا تھا۔وہ مصنوعی سی خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔میں نے بغور اس کی طرف دیکھا۔پھر اس سے پوچھا:
Flag Counter