ساتھ متفق ہیں۔ بعض چیزوں میں عام لوگوں سے ممتاز ہیں۔ ان کے مخالف معقول، منقول، قیاس، رائے، کلام، نظر واستدلال، حجۃ، مجادلہ، مکاشفہ، وجد وذوق وغیرہ سے اہل حدیث کا مقابلہ کریں تو اہل حدیث ان تمام طریقوں میں ان سے بدرجہا بہتر اور اعلیٰ ہیں۔‘‘ آخر میں فرمایا: وهذا هو للمسلمين بالنسبة إلى سائر الأمم ولأهل السنة والحديث بالنسبة إلى سائر الملل ص8 مسلمانوں میں یہ ذہانت اور یہ خوبیاں تمام امتوں سے زیادہ ہیں۔ اہل حدیث میں باقی تمام مذاہب سے زیادہ 1ھ ص6 سے ص11 تک فرمایا۔ ائمہ اربعہ اور باقی تمام فقہاء محدثین کو دنیا میں اس لئے برتری حاصل ہے کہ وہ ائمہ اہل حدیث اور سنت کے موافق تھے۔ اسی طرح بدعتی فرقوں کا حال ہے جہاں تک وہ اہل حدیث کے موافق ہیں ان کی تعریف کی گئی ہے اور جہاں تک وہ اہل حدیث کے مخالف ہیں علمی حلقوں میں مذمت کی گئی ہے (گویا حق وباطل کا معیار ہمیشہ اہل حدیث رہے ہیں۔) شیخ الاسلام اسی لقب کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ونحن لا نعني بأهل الحديث المقتصرين على سماعه أو كتابته أو روايته بل نعني بهم كل من كان أحق لحفظه ومعرفته وفهمه ظاهرا وباطنا وكذلك أهل القرآن (نقض المنطق ص81) اہل حدیث اور اہل قرآن سے ہماری مراد وہ لوگ نہیں جو صرف حدیث کے سماع یا روایت یا کتابت تک ہی محدود ہوں بلکہ مراد وہ لوگ ہیں جو حدیث کے حافظ، اس کے مفہوم کو ظاہری اور باطنی طور پر پوری طرح سمجھتے ہوں اور پوری طرح اس کا اتباع بھی کرتے ہوں۔ یعنی ان میں بصیرت اور تفقہ بدجۂ اتم موجود ہے۔ ص 74 پر لکھتے ہیں: إن علامة الزنادقة تسميتهم لأهل الحديث حشوية بے دین لوگ اہل حدیث کو لفظ پرست اور حشوی کہتے ہیں اھ اس کے بعد فرمایا: فقهاء الحديث أخبر بالرسول من فقهاء غيرهم وصوفيتهم أتبع للرسول من صوفية غيرهم وأمراءهم بالسياسة النبوية من غير وعامتهم أحق بموالات |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |