مگر اشعری اور ماتریدی کو دے دی گئی۔ یہ حضرات عقائد میں الگ ائمہ قرار پائے۔ گویا فقہی فروع میں الگ امام، عقائد میں اور امام۔ پھر ذرا اس سے آگے بڑھ کر جب تصوّف میں طبقاتی دور آیا۔ اسلامی زہد وورع یا احسان میں جب بدعات شامل ہونے لگیں اور خانقاہی نظام نے پیشہ اور دکانداری کی صورت اختیار کر لی تو اس وقت کے دانشوروں نے چند امام یا فرقے انتخاب کر لیے یعنی حنفی اور شافعی، مالکی اور حنبلی، تصوف نقشبندی، قادری، سہروردی اور چشتی وغیرہ ہوگئے۔ گویا تین مختلف محاذوں پر ائمہ کے متبعین نے اپنے امام بدل لئے۔ یوں سمجھئے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے باقی رفقاء کی امامت فروع تک محدود ہوگئی۔ وہ تصوف اور عقائد میں امام ومقتدیٰ نہیں بن سکتے۔ ہمارے ملک میں احناف کی بریلوی قسم عموماً قادری ہیں۔ حالانکہ شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ فروع میں حنبلی تھے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تصوف میں دس فرقوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اہلحدیث کی روش ان تمام مقامات میں بحمد اللہ اہل حدیث کی روش ایک جیسی رہی۔ وہ فروع عقائد اور تصوف میں صحابہ کی اتباع کرتے رہے۔ اور خانقاہی نظام کی بدعات سے اسی طرح نفرت کی جس طرح فروع میں جامد تقلید اور عقائد میں بے دینی کی بدعات سے انہیں نفرت تھی ذلك فضل الله يعطيه من يشاء ان تمام مراحل میں ائمہ سلف کی اتباع کرتے اور وقت کی ہر بدعت سے برسر پیکار رہے۔ ع أهل الحديث همو أهل النبي وإن لم يصحبوا نفسه أنفاسه صحبوا یہی حال تقریباً حنابلہ کا رہا وہ اشعریت اور ماتریدیت سے بہت کم متاثر ہوئے۔ اہل حدیث نے کتاب وسنت کے فہم میں کسی فرد کی امامت کی بجائے ائمۃ سلف اور صحابہ کو اپنا امام تصور کیا اور فروع وعقائد واحسان اور تصوف میں ان بزرگوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اور نہ شخصی آراء وافکار کو ائمہ سلف اور صحابہ کا بدل سمجھا۔ در اصل فتنوں کے دور عروع میں آزادی اور پابندی، حجود اور آوارگی کے بین بین یہی صحیح حل تھا جسے ائمہ حدیث نے تلاش فرمایا۔ اور عملاً صدیوں اس پر کاربند رہ کر آوارگی ذہن اور جمود کا مقابلہ کیا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) کی مجاہدانہ کوششیں صفحاتِ تاریخ کی رونق ہیں۔ انہوں نے جہاں اعتزال اور تجہم کو دفن کیا اور ان کے تابوت میں آخری میخ ٹھونکی، وہاں رفاعی فرقہ کے فقیروں کے |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |