اس سے معلوم ہوا کہ اگر شوہر بھی اپنی بیوی پر زنا کا الزام عائد کرے گا یا بہ چشم خود بھی ملاحظہ کرے گا، تب بھی اس کو اس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بدچلن بیوی کو سزا دلوا کر کیفرِ کردار تک پہنچائے تو عدالت میں چار گواہ پیش کیے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکتا۔
لعان کی صورت:
البتہ شوہر کے لیے، چوں کہ بیوی کی یہ نازیبا حرکت دیکھ لینے کے بعد، برداشت کرنا نہایت مشکل، بلکہ ناممکن ہے، لیکن چار گواہ بھی پیش کرنا کارے دارد ہے، جب کہ چار گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں زنا کا الزام لگانے والے کے لیے قذف کی حد (اسّی کوڑے) ہے۔ تاہم شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے لعان کر لے۔ اس صورت میں دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہو جائے گی اور دونوں دنیوی سزا سے بچ جائیں گے، خاوند کو قذف (تہمت) کی اور عورت کو زنا کی حد نہیں لگے گی۔
البتہ عام لوگوں کے لیے شریعت کا قانون یہ ہے کہ جو اپنی بیوی کے علاوہ کسی مرد یا عورت پر زنا کا الزام عائد کرتا ہے اور وہ چار گواہ پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے تو الزام لگانے والا ایک ہو یا ایک سے زیادہ دو یا تین ہوں (چار پورے نہ ہوں) تو سب قذف کی سزا (اسّی، اسّی کوڑوں) کے مستحق ہوں گے۔ چناں چہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سیدنا مغیرہ بن شعبہ پر زنا کا الزام لگایا گیا اور الزام لگانے والوں نے چار گواہ بھی پیش کر دیے، لیکن تین گواہوں نے تو گواہی دے دی، چوتھے گواہ نے صراحتاً زناکاری کی گواہی دینے سے انکار کر دیا، صرف یہ کہا: میں نے امرِ قبیح تو ضرور دیکھا، لیکن اصل کام ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سیدنا عمر نے اﷲ اکبر کہا اور اﷲ کی حمد بیان کی (کہ اﷲ نے سیدنا مغیرہ کو زنا کی سزا سے بچا لیا) اور باقی تینوں گواہوں پر قذف کی حد جاری کی۔ [1]
لعان کے بعد بچہ صحیح النسب نہیں مانا جائے گا:
لعان کے نتیجے میں صرف میاں بیوی کے درمیان ہی جدائی نہیں ہوگی، بلکہ اس کے بعد پیدا ہونے والا بچہ بھی صحیح النسب نہیں مانا جائے گا اور وہ ماں کی طرف منسوب ہوگا۔ اس سلسلے میں عمار صاحب لکھتے ہیں:
’ ’لعان کا دوسرا قانونی اثر یہ مرتب ہوگا کہ عورت جس بچے کو جنم دے گی، اس کا نسب اس کے شوہر سے
|