کے اثبات کے لیے چار گواہوں کو ضروری قرار دیتی ہے اور شریعتِ اسلامیہ نام ہے قرآن و احادیثِ صحیحہ کا۔ قرآن میں تین مقامات پر اس کا ذکر ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن میں تو عام الزام لگانے والوں کے لیے یہ حکم ہے، خاوند اگر الزام لگائے تو اس کے لیے اس شرط کی پابندی نہیں ہے تو یہ قرآن فہمی بھی قابلِ ماتم ہے۔ قرآن کے الفاظ پر غور فرمائیں:
﴿وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ﴾ (النساء: 15)
’’تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کرے تو تم اپنے (مسلمان مردوں میں سے) چار گواہ پیش کرو۔ ‘‘
کیا ’’اپنی عورتوں ‘‘ میں ایک مسلمان کی اپنی وہ بیوی شامل نہیں ہوگی، جو بے حیائی (فاحشہ) کی مرتکب ہوگی؟ پھر شوہر کے لیے بھی چار گواہ کی پابندی کیوں نہیں ہوگی؟
دوسری آیت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً﴾(النور: 4)
’’وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر (زنا کا) بہتان لگائیں، پھر چار گواہ پیش نہ کریں تو انھیں اسّی کوڑے مارو (قذف کی سزا دو)۔ ‘‘
کیا محصنات (پاک دامن عورتوں) میں ایک مسلمان کی اپنی بیوی شامل نہیں ہے؟ پھر اس کے لیے چار گواہوں کی پابندی کیوں ضروری نہیں؟
قرآن کریم کی ان واضح آیات کے بعد حدیث ملاحظہ ہو۔ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے سوال کیا: اے اﷲکے رسول!
(إِنْ وَجَدْتُّ مَعَ امْرَأَتِيْ رَجُلًا اُمْھِلُہٗ حَتّٰی آتِيَ بِأَرْبَعَۃِ شُھَدَائَ )
’’اگر میں (اپنی آنکھوں سے) اپنی بیوی کے پاس کسی آدمی کو پا لوں تو کیا میں اس شخص کو اس وقت تک مہلت دوں (چھوڑے رکھوں) جب تک میں چار گواہ نہ لے آؤں؟۔ ‘‘
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ’ نَعَمْ ‘[1] ’’ہاں۔ ‘‘
|