Maktaba Wahhabi

34 - 222
وپاکیزگی کی اس چادر کو تارتار کردینے والا ہے،جسے مذکورہ شرعی آداب نے بُنا ہے۔ اور کیسے نہ ہو جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امواجِ فتن جوش میں ہیں،اور عصرِ حاضر کے پرفتن میڈیاکی بپھری ہوئی ہوائیں ،دینی پردہ کی طنابوں کوجڑ سے اکھیڑ دینے اور عفت وپاکدامنی کی حدود کوٹکڑے ٹکڑے کردینے کے درپے ہیںاور انسانی بھیڑیئے جوگدلے پانی میں شکار کے عادی ہیں،اورہرقسم کی شہوات وشبہات کے پیچھے، کتے کی طرح زبان نکالے،قعرِ مذلت میں کودنے کیلئے مستعد ہیں جو مواقع سے ناحق فائدہ حاصل کرنے کی پوری مہارت وصلاحیت رکھتے ہیں۔ اور اس کے پہلوبہ پہلو وہ عورتیں بھی دکھائی دیتی ہیں،جو مغربیت کا لبادہ اوڑھے، خواہشات کے ہر داعی کی دعوت پر لبیک کہنے کیلئے ہر وقت تیار رہتی ہیں، آبگینۂ عزت کو بری طرح ٹھیس پہنچاناہی ان کافن اور پیشہ ہے،جن کا اخلاقی پیمانہ، قلتِ حیاء کامظہر ہے، مختلف مواقع پر رونما ہونے والے فیشن شو اس ذلت کی نشاندہی کیلئے ،بین ثبوت ہیں ۔ ایک شاعر اسی معاشرہ کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے: کأن الثوب ظل فی صباح یزید تقلصا حینا فحینا فیشن زدہ عورتوںکا لباس،صبح کے سائے کی مانند ہے ،جو رفتہ رفتہ سکڑتا جاتا ہے۔ شیخ علی الطنطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ گرلزہائی اسکول کی ایڈمنسٹریڈ،مدرسہ بغیر چہرہ کا پردہ کئے آئی،توسارے دمشق نے اس کے خلاف بائیکاٹ میں کام کاج چھوڑ کر اس قدر مظاہرہ کیا کہ حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے اور حکومت نے اس کو پردہ کے احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ سزا بھی دی،جبکہ اس نے صرف اپنے چہرہ کا پردہ نہیں کیاتھا۔(باقی پورا جسم ڈھکا ہواتھا)
Flag Counter