Maktaba Wahhabi

167 - 186
تھے، مگر جب سے صحافت صنعت بنی ہے اور مشترکہ سرمائے سے اخبارات نکلنا شروع ہوئے ہیں یہ ضروری نہیں رہا ہے کہ مالک اور عامل صحافی کے خیالات ایک جیسے ہوں ۔ آج کل اخبار کی پالیسی بنانے میں عامل صحافیوں کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ عامل صحافیوں کا کام بس اس قدر رہ گیا ہے کہ وہ اخبار کی طے شدہ پالیسی اور مالکان کی ہدایت کے مطابق اخبار مرتب کر دیں ، ایسی صورت میں ایک عامل صحافی کے ضمیر کو جس اوّلیں سوال کا سامنا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا اخبار کی پالیسی اس کے ایمان اور عقیدے کے مطابق ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو کیا ایسی صورت ہے جس کے مطابق کام کرنا کسی بااصول اور باضمیر مسلمان صحافی کے لیے سرے سے ممکن ہی نہیں ۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ اخبار کا نصب العین اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنا ہو اور اس کی پالیسی یہ ہو کہ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں سب سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ ایسی صورت میں ایک مسلمان عامل صحافی پوری طرح دلی رغبت سے کام کرے گا اور اس کا ضمیر بھی پیشہ وارانہ خدمات انجام دے کر طمانیت محسوس کرے گا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ اخبار کا نصب العین مسلم معاشرے کی بھلائی اور بہتری ہو اور اس کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد مسلم قومیت کا مفاد ہو، تو ایسے اخبار میں کام کرنے کے لیے ایک مسلمان عامل صحافی اپنے اندر لچک پیدا کر سکتا ہے۔ ایسے اخبار میں وہ مسلم قوم کے حوالے سے اسلام کی سربلندی اور قرآن وسنت کے مطابق نظام حکومت کی تشکیل و تنظیم کی بات کر سکتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اخبار سیکولرازم، سوشلزم یا کسی اور غیر اسلامی نظریہ حیات کا علمبردار ہو اور کسی مسلم عامل صحافی کو اس میں پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے کا موقع مل رہا ہو تو یہ کام وہ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر ہی کر سکتا ہے۔ شرعاً بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ کے دین کے مقابلے میں غیر اللہ کے دین کو سربلند کرنے کی جدوجہد کرنا شرک اور بغاوت ہے اور اسلام باطل اور حرام چیزوں کے فروغ اور ترقی میں کسی حیثیت سے بھی مددگار
Flag Counter