سے دوچار ہوئے بغیر اپنی حیات و زندگی کو بسرنہیں کرسکتا اس لیے کہ قانون خداوندی ہے: ﴿تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ﴾۶۱؎ ان حالات و واقعات اور نشیب و فراز کامقابلہ کرنے کے لیے اور انہیں بطریق احسن پایا تکمیل تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ساتھ ساتھ عزیزو اقارب اور دوستوں کی نصرت کی غیرمعمولی ضرورت ہوتی ہے جسے شریعت اسلامیہ مستحسن قرار دیتی ہے بلکہ رسول ثقلین1 نے ایسے موقع پر مدد و نصرت کا حکم صادر فرمایا۔ وفات پانے والے کے اہل خانہ کے لیے کھانا تیارکرنا حضرت عبداﷲ بن جعفررضی اللہ عنہ سے روایت ہے:’’لما جاء نعی جعفر بن ابی طالب حین قتل قال النبی((!اصنعوا لأہل جعفرطعاما فإنہ قدجاء ھم ما یشغلھم)) ۶۲؎ جب جعفر رضی اللہ عنہ بن ابوطالب کی خبر شہادت موصول ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تلاش کرو کیونکہ ان کو ایسی(تکلیف دہ) اطلاع ملی ہے جو انہیں کھانا پکانے سے مشغول رکھے گی۔‘‘ ائمہ محدثین کے اقوال و آثار 1۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اہل میت کی اعانت کی غرض سے کھانا تیارکرکے ان کے ہاں بھیجنا مستحب ہے۔‘‘۶۳؎ 2۔ امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میت کا پڑوسی یا کوئی رشتہ دار میت کے گھر والوں کے لیے وفات کے دن و رات میں اتنا کھانا تیارکرے جو انہیں سیر کردے کیونکہ یہ سنت ہے۔‘‘۶۴؎ 3۔ امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میت کے گھر والوں کے لیے کھانا تیارکرکے بھیجنا میت کے اقرباء اور پڑوسیوں کے لیے مستحب ہے۔‘‘ ۶۵؎ 4۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’میت کے گھر والوں کے لیے کھانا تیارکرکے بھیجنا مستحب ہے۔۶۶؎ 5۔ امامصنعانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں یہ ثبوت موجود ہے کہ میت کے گھر والوں کوتسلی دینے کی غرض سے ان کے لیے کھانا تیار کرنا مشروع ہے کیونکہ وہ وفات کی وجہ سے(دیگر امور میں) مشغول ہوتے ہیں۔‘‘۶۷؎ 6۔ شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’میت کے اقرباء اور اس کے پڑوسی میت کے گھر والوں کے لیے اتنی مقدار میں کھانا تیارکریں جو انہیں سیر کردے۔یہ مسنون طریقہ ہے۔‘‘۶۸؎ 7۔ عبداللہ بسام ’’توضیح الاحکام شرح بلوغ المرام‘‘ میں لکھتے ہیں: |