Maktaba Wahhabi

102 - 372
بعض اہل ظاہر تواس سے بھی بڑی رائے کی طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس سے اٹھارہ بیویاں جمع کرنا جائز ہوا اوردلیل یہ ہے کہ ان صیغوں میں عددتکرار کا تقاضا کرتاہے اور واو جمع کے لیے ہے اس نے مثنی کواثنین کے معنی میں اورثلاث اور رباع کو بھی ایسے ہی کردیاہے۔ یہ سب تولغت عرب،سنت،اجماع مسلمین سے نا آشنائی ہے۔جیساکہ صحابہ وتابعین میں سے کسی کے متعلق یہ سننے میں نہیں آیا کہ اس نے اپنی عصمت میں چار سے زیادہ بیویاں رکھی ہوں۔ جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز کیا گیا ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے۔رہی ان کی یہ بات کے واو جمع کے لیے ہے تواللہ تعالیٰ نے عرب کو سب سے فصیح لغت کے ساتھ مخاطب کیاہے۔عرب ایسانہیں کرتے کہ نوکوچھوڑکر دو،تین اورچار کہہ دیں اسی طرح یہ بات بھی بڑی سمجھی جاتی تھی کہ اٹھارہ کہاجائے بلکہ یوں کہا جائے کہ فلاں کودو،چار،چھ اور آٹھ دے دو۔اس مقام پر واو بدل کے لیے آئی ہے یعنی دوکے بدلے تین سے نکاح کر و اورتین کے بدلے چار سے نکاح کرو اسی طرح ’واو‘ سے عطف کیا اور ’او‘ سے عطف نہیں کیا۔اگر عطف أو کے ساتھ آجاتا تودو والے کوتیسری اورتین والے کو چوتھی سے نکاح کرنا جائز نہ ہوتا۔رہی ان کی یہ بات کہ مثنی دوکا اورثلاث تین کا اور رباع چار کا تقاضاکرتاہے تویہ زبردستی کا فیصلہ ہے جس پر اہل لغت ان سے موافق نہیں ہیں۔اور یہ ان سے عدم واقفیت ہے اسی طرح دوسرے بھی لاعلم رہے کہ مثنی سے دو اورثلث سے تین تین اوررباع سے چار چار مراد ہیں۔انہیں یہ علم نہیں ہے کہ دو دو،تین تین،اورچار چار میں توعدد میں حصرہے جبکہ مثنی،ثلاث اور رباع اس کے خلاف ہے۔عرب کے ہاں معدول،عدد میں ایسا معنی زائد ہوتاہے جواصل میں نہیں ہوتا۔یہ اس لیے کہ جب کوئی کہے گا کہ گھوڑے دو دو ہوکر آئے اس سے مراد یہ ہوگا کہ وہ مل کر دو دو ہو کر آئے۔ ’جوہری‘کہتے ہیں معدول عدد بھی ایسے ہی ہوتاہے نیزکہتے ہیں۔جب تم کہوگے کہ قوم ’’دو دو،تین تین،اوردس دس آئے۔تواس سے یہی مرادلیاجائے گا کہ وہ ایک ایک،دو دو،تین تین اوردس دس آئے۔یہ واو معنی اصل میں نہیں ہے۔کیونکہ جب تم کہوگے کہ میرے پاس تین تین اوردس دس لوگ آئے تم نے،قوم کے عددکو تین اور دس میں حصر کردیا جب کہوگے دو دو اورچار چار آئے توان کاعدد بند نہ ہوا،تواس کامطلب یہ ہوا کہ وہ دو دو اورچار چار ہوکر آئے۔اس باب میں خواہ ان کی تعداد زیادہ ہویا کم ہوان میں سے ہر ایک کامقتضی سے کم عدد اپنے خیال میں اسے بند کرنازبردستی ہے۔۱۲؎ تعددازواج احادیث کی روشنی میں تمام فقہاء ومحدثین اس امر پر متفق ہیں کہ نبی آخر الزماں1 کا فرمان ہی قرآن کریم کی سب سے معتبر اور مستند تشریح و تفسیر ہے۔جو معنی آیت الٰہی کا حدیث مقرر کردے وہی دینی اور تشریعی مفہوم قابل قبول اور معتبر ہو گا رسول اکرم1 اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے فعل سے ثابت کردیا کہ اسلام میں چار شادیوں کی مرد کے لیے اجازت ہے جس میں حالات کی تخصیص ہے اور نہ کسی اور اضطراری کیفیت کی شرط ہے بلکہ علی العموم یہ فضیلت والاعمل اورحصول ثواب واجر کا معاملہ ہے اس ضمن میں وارد مشہور احادیث حسب ذیل ہیں۔ حارث بن قیس بن عمیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قال أسلمت وعندی نسوۃ وأسلمن معی وھاجرن معی فقال ’’اختر اربعا منہن‘‘۱۳؎ ’’کہ میں جب حلقہ بگوش اسلام ہوا تومیری آٹھ بیویاں تھیں میں نے خود ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا
Flag Counter