[یہودی مرد اور یہودی عورت کو رجم کرنے کے متعلق باب]
امام ترمذی لکھتے ہیں: اہلِ علم کی اکثریت کا اس پر عمل ہے۔ انھوں نے بیان کیا: ’’جب اہل کتاب آپس میں جھگڑا کریں اور مسلمان حکمرانوں کے رُوبرو اپنا معاملہ پیش کریں، تو وہ ان کے درمیان کتاب و سنت اور مسلمانوں کے احکام کے مطابق فیصلہ کریں گے۔‘‘ یہی احمد اور اسحق کا قول ہے۔
ان [اہلِ علم] میں سے بعض نے کہا: ’’زنا کی بنا پر حد قائم نہ کی جائے گی۔‘‘[1]
امام ترمذی فرماتے ہیں:
’’وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ۔‘‘[2]
’’پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔‘‘
علامہ ابن العربی نے قلم بند کیا ہے: ’’حدیث میں (یعنی حدیث سے ثابت ہوتا) ہے، کہ اسلام [احصان] کے لیے شرط نہیں‘‘۔ (یعنی شادی شدہ زانی، غیر مسلم ہونے کی بنا پر، شادی شدہ زانی کی سزا سے بچ نہ سکے گا [اس پر مسلمان شادی شدہ زانی کی طرح [رجم] کی حد قائم کی جائے گی۔]
علامہ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
’’وَالْحَقُّ أَحَقُّ أَنْ یُتَّبَعَ، وَلَوْ جَائَنِيْ لَحَکَمْتُ عَلَیْہِمْ بِالرَّجْمِ، وَلَمْ أَعْتَبِرِ الْإِسْلَامَ فِيْ الْإِحْصَانِ۔‘‘
’’حق اتباع کا زیادہ حقدار ہے۔ اگر وہ (اہلِ کتاب) میرے پاس آئیں، تو میں ان پر رجم (کی حد قائم کرنے) کا فیصلہ دوں گا اور [احصان] کے لیے اسلام کو معتبر [یعنی شرط] نہیں ٹھہراؤں گا۔‘‘[3]
|