کرتے ہوئے آنکھوں کی بدکاری وزناکاری کے مرتکب اس پردے کو اختیار کر لیتے ہیں کہ اس فیشن ایبل ماڈرن پردے سے ہم دونوں طرف چل جائیں گے اور قابل قبول ہوں گے۔ حالانکہ یہ دورخی پالیسی آدمی کو کسی گھاٹ کی نہیں رہنے دیتی۔ ہر مومن مسلمان یک رنگ ہو تا ہے دورنگ نہیں‘اسی لیے شاعر نے کہا ہے: دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا سراسر موم ہو جا یا سنگ ہو جا اور اس پردے کے متعلق دوسرے شاعر نے کھل کر یہ بات کہہ دی ہے کہ: عجب پردہ ہے کہ چلمن میں چھپے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ماڈرن د یندار و ں کے ماڈرن پر د ے کی ایک جھلک ان کے خوشنما‘ دیدہ زیب‘ خوبصورت لباسوں سے بھی نظر آتی ہے ۔ طرح طرح کے ڈیزائن ‘ بیل بوٹے ‘نقش نگار‘ مختلف تصایراور اللہ جانے کیا کیا پرکشش انداز اپناتے ہیں وہ اپنے لباسوں پر‘ کہ دیکھنے وا لے کھنچتے چلے آتے ہیں۔ حالانکہ ایک مومنہ بہن کے کپڑے اتنے شفاف بھڑ کیلے ڈیزائن دار نہیں ہو نے چاہئیں کہ جو دوسروں کے لیے کشش اور توجہ کا باعث بن سکیں‘ بلکہ ایسے سادہ ہوں کہ’’ ر وشن خیال خواتین و حضرات‘‘ دیکھتے ہی کہہ اٹھیں کہ کوئی دیہاتن‘ مولوی یا دور سے آئی ہوئی خاتون جا رہی ہے۔ لیکن کیا کریں اپنی بچیوں کی تربیت میں رہ جانے والےنقص کی بنا پر جب ہم ان سے اس طرح کی تربیت کے تقاضوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ بڑی خوبصورتی سے یہ کہہ کر اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کا مذاق اڑاتی ہوئی نظرآتی ہیں کہ باباجان ‘ ابا جان‘ بھائی جان و غیرہ! وہ آپ کا دور اور تھا‘ یہ دور اور ہے۔ یہ ترقی‘ تعلیم‘ جدید تہذیب اور روشنی اور روشن خیالی کا دور ہے‘ گھٹن اندھیرے‘ پرانی فکریں اور قدریں دم توڑ چکی ہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور آپ ہیں کہ پرانی رسموں کو ابھی تک سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ پردہ آدمی کی فکر و نظر میں ہونا چاہیے‘ اس کے باطن میں دل و دماغ میں ہو نا چاہیے‘ ظاہر کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ بوڑھے و الدین کا اس مسئلہ میں اس طرح مذاق اڑاتی ہیں کہ جس طرح وہ پرانے زمانوں کے غیر تہذیب یافتہ‘ جاہل‘ اجڈ بدھو لوگ کوئی احمقانہ و بےوقوفانہ باتیں کر رہے ہوں۔ اب وہ صرف یہ نہیں کہ پاؤںننگےرکھتی ہیں بلکہ شلوار ٹخنوں سے اتنی اونچی رکھتی ہیں کہ جیسے ابھیدر یائے راوی پار کر نا ہو اور باز و آدھے سے زیادہ ننگےرکھتی ہیں۔ گریبان کشادہ اور کھلا رکھتی ہیں۔ او پر سے اس کو ایک لاکٹ سے مزین کر کے سراپا فتنہ بن جاتی ہیں۔ یوں ان کی زینت ظاہر ہوتی ہے‘ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس کے عذاب کا کوڑا برستا ہوا کسی نہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |