Maktaba Wahhabi

40 - 434
نہ ٹپکے جتنا اکیلے آمنہ کے لال کے چہرے سے جلال ٹپکے۔ اس قدر خوبرو کہ ایک طرف حسن یوسف اور کائنات کے حسین اکٹھے ہو جائیں تب بھی میرے آقا کی خوبروئی کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ساری کائنات کے صاحبان کمال کو الگ الگ میرے رب نے جو اوصاف عطا کئے تھے وہ سارے کے سارے اوصاف اللہ نے میرے آقا میں اکٹھے کر دئیے جس کے بارے میں کسی شاعر نے اس طرح تعبیر کی کہ حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری کہ وہ تو خوبیاں ایک ایک لے کر آئے تھے اور اللہ نے آپ اکیلے میں وہ ساری خوبیاں اکٹھی کر دی ہیں۔ اسی لئے تو کسی نے کہا تھا یا صاحب الجمال و یا سید البشر من وجہک المنیر لقد نور القمر لا یمکن الثناء کما کان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر تیرے اوصاف کو میں کیسے بیان کروں؟ اتنا ہی کہے دیتا ہوں کہ عرش پر خدا ہے اور فرش پہ مصطفی ہے۔ اسی لئے غالب نے بھی کہا تھا غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزا شتیم اے غالب! تو اپنے آقا کی تعریف میں قصیدے مت کہو کہ تیرے پاس وہ زبان کہاں سے آئے جو آقا کی منقبت میں شعر کہہ سکے۔ اتنا ہی کہہ دو کہ تمہارے آقا کے سارے اوصاف کو اگر کوئی جانتا ہے تو خود عرش والا ہی جانتا ہے۔ ان ساری باتوں میں کوئی شک نہیں کوئی شبہہ نہیں اور یہ ہمارے عقیدے کا ہمارے ایمان کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ہم نے کبھی سوچا ہے ان سارے اوصاف کے باوجود سرور گرامی کی حیثیت صرف محمد ابن عبداللہ کی تھی۔ یہ سارے اوصاف جو آپ کی شخصیت گرامی میں اکٹھے ہو گئے تھے ان سب نے مل کر بھی آپ کو محمد ابن عبداللہ سے آگے نہیں بڑھایا ہے۔
Flag Counter