میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے آدمی موجود تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات سے باخبر رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ مکہ[1] جیسے مرکزی شہر میں نامہ نگار متعین کیا۔ جو خفیہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں کے حالات سے باخبر رکھتا تھا۔ آج کی زبان میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا Intelligence Dept. بھی اپنے دشمن کی نسبت بہت زیادہ متحرک اور فعال تھا۔ (۸) فوجی تربیت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی فوج کی فوجی تربیت‘ پریڈ اور لیفٹ رائٹ کے انداز سے نہیں فرمائی بلکہ اس کی ابتدا نماز سے کی گئی۔ عسکری نقطہ نظر سے نماز سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں: (۱) صف بندی‘ صفوں کی درستی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصی توجہ فرماتے تھے اور اس درستی کو نماز کا حصہ قرار دیا گیا۔ (۲) اطاعت امیراور ڈسپلن ‘ نماز میں امام کی تکبیر پر سب کو بلاچون و چر ا امام کی اطاعت کرنا پڑتی ہے۔ وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ سب نمازیوں کی تمام حرکات ایک ساتھ عمل میں آئیں۔ اور لحظہ بھر کی بھی تقدیم و تاخیر گوارا نہیں۔ یہ دن میں پانچ مرتبہ اللہ کے سامنے اظہار عبودیت اور اطاعت امیر اور ڈسپلن کی مسلسل اور ناقابل فراموش مشق ہے۔ (۳) رابطہ باہمی‘نماز سے اس ’’اسلامی[2] فوج‘‘ کا آپس میں مسلسل رابطہ قائم رہتا ہے۔ جو باہمی موانست ‘محبت اور یک جہتی کا بہت بڑا سبب ہے۔ (۴) وقت کی پابندی کیونکہ نماز کی مقررہ اوقات پر پابندی بھی فوجی نقطہ نگاہ سے بہت اہم مقام رکھتی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ طے شدہ پروگرام میں چند منٹ کی تاخیر بھی فتح کو شکست میں تبدیل کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ (۵) طہارت اور پاکیزگی‘ نماز کی ادائیگی سے پہلے طہارت کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ جو |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |