حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شورٰی کے مستقل اور ممتاز اراکین تھے جنگ بدر کے قیدیوں سے متعلق مجلس مشاورت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا: لَوِاجْتَمَعَا مَا عَصِیْتُکُمَا[1] اگر دونوں کا مشورہ ایک ہوجائے تو میں اس کا خلاف نہ کرونگا۔ مشورہ آپ کا معمول بن چکا تھا اور اس میں آزادی رائے کا پورا حق دیا جاتا تھا۔ بعض دفعہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سمجھ میں کوئی بہتر بات آجاتی تو وہ از خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتے تھے۔ حضرت حباب بن منذر نے جنگ بدر میں پڑا ؤ کے انتخاب کے لیے از خود مشورہ دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا۔ جنگ احزاب کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غطفان سے صلح کے متعلق صرف انصار کے دور ؤ ساء حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا اور ان کی رائے پر عمل فرمایا۔ جنگ خندق کے متعلق مشورہ کی مجلس قائم ہوئی تو خندق کی کھدائی کا مشورہ صرف ایک صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیا تھا جسے قبول کیا گیا۔ آپ اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کہ مشورہ دینے والا بلا جھجک پوری آزادی سے اپنی رائے دے سکے۔ جنگ بدر کے آغاز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس مشاورت بلا کر فرمایاتھا: اَشَیْرُوْ عَلَیَّ اَیُّهَا النَّاسُ[2]اے لوگو! مجھے اس معاملہ میں مشورہ دو۔ مشورہ اور آزادی رائے: درج ذیل واقعہ سے معلوم ہوگا کہ صحابہ کرام ث رائے کے اظہار میں آزادی حق کو کیسے استعمال کرتے تھے: غزوۂ احزاب میں اتحادیوں کا محاصرہ طویل ہوگیا۔ مسلمانوں کا خوارک کی قلت کی وجہ سے برا حال تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ غطفان کو مدینہ کی پیداوار کا ایک تہائی دینے کے وعدہ پر ان کا اتحاد توڑ دیا جائے تو اتحادیوں کا یہ محاصرہ جلد ختم ہو سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے دو سرداروں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلا کر مشورہ کیا۔ دونوں نے عرض کیا کہ اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو مجال انکار نہیں لیکن اگر مشورہ کی غرض سے ہے تو عرض ہے کہ کفر کی حالت میں بھی ہم سے کوئی شخص خراج مانگنے کی جرأت نہ کرسکا اور اب تو اسلام نے ہمارا پایہ بہت بلند کردیا ہے۔ انصار کا یہ استقلال دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ارادہ ترک کردیا[3]۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |