اپنی بیٹی کو واپس کردیا جائے۔ بلکہ یہ معاملہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے پیش کیا اور درخواست کی کہ اگر کہو تو حضرت خدیجہ کی یہ نشانی زینب رضی اللہ عنہا کو واپس کر دی جائے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رضامندی کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہار واپس کردیا اور ابو العاص کو بھی رہا کردیا۔ یہ تھے فدیہ کی رقم کی وصولی کے وہ مختلف طریقے جو جنگی قیدیوں کی رہائی کے سلسلہ میں بروئے کار لائے گئے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فدیہ لینا ہی نہ چاہتے تھے۔ ان قیدیوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ث سے مشورہ لیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم نوا ؤ ں کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم نوا ؤ ں کی رائے یہ تھی کہ ان قیدیوں سے فدیہ لیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو اس لیے پسند فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی طبیعت کے نرم تھے۔ (۴) تبادلہ: دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جنگی قیدیوں کے تبادلے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی بھی جنگ میں مسلمان قیدی نہیں بنائے گئے ۔ جبکہ کفار کو ہر بار شکست ہوتی رہی۔ اور قیدی بھی ہاتھ آتے رہے۔ معرکہ کارزار کے علاوہ دوسری مہموں یعنی گشتی اور تبلیغی دستوں کی شکل میں بعض مسلمان کافروں کی عہد شکنی اور غداری کی وجہ سے شہید ہوئے۔ اور قید بھی پھر کچھ مسلمان محض اسلام لانے کی وجہ سے قریش مکہ کی قید میں تھے۔ ایسے مسلمان قیدیوں کو چھڑانا اسلامی حکومت کا اولین فریضہ ہے اور ایسے قیدیوں کے تبادلے کا بھی دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت مل جاتاہے۔ مسلم، ابو دا ؤ د اور ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مسلمانوں کے بدلہ میں ایک دفعہ مشرکین کے ایک آدمی کو رہا کیا۔ ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرفتار شدہ لڑکی اہل مکہ کو دے کر ان سے دو مسلمان رہا کرائے[1]۔ (۵ ) قیدی کو غلام بنانا یا تہ تیغ کرنا: غزوہ بنو قریظہ ذی الحجہ ۵ ھ پورے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ایک ہی موقع ہے جبکہ اسیرانِ جنگ کو غلام بنایا گیا ہے یا تہ تیغ کیا گیا ۔ ان کے۴۰۰ لڑائی کے قابل آدمیوں کومارا گیا اور ۲۰۰ بچوں ، بوڑھوں، عورتوں ، معذوروں کو غلام بنایا گیا۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |