پیچھے تم سے جھگڑنے لگے۔ گویا موت کی کی طرف جاتے ہیں اور وہ اسے دیکھ رہے ہیں۔) اب صُورت یہ ہوئی کہ ایک طرف صرف 313آدمی ہیں جو پوری طرح مسلح بھی نہیں۔اور جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ لڑنا پڑے گی تو ان میں سے اکثر دل چھوڑ بیٹھے ہیں۔ پھر ان کے اپنے کھانے پینے کے سامان کی قلت ہے اور سامانِ جنگ کی بھی۔ اور دوسری طرف صورت یہ ہے کہ لشکر کی تعداد مسلمانوں سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سب لوگ مسلح ہوکر نکلے ہیں کہ تجارتی قافلہ کو مسلمانوں کی دست بُرد سے بچا کر لانا ہے۔ اور اِسی مُد بھیڑ میں مسلمانوں کا استیصال بھی کرنا ہے۔ لہذا ان کے ساتھ اسلحہ جنگ بھی وافر مقدار میں ہے۔ گھوڑے بھی بہت ہیں۔ فوج بہادر ان قریش پر مشمل ہے۔ کھانے پینے کا سامان اتنا وافر ہے کہ روزانہ دس 10اونٹ ذبح ہوتے ہیں۔ ۔ پینے کو شراب بھی کافی ہے۔ اور جُملہ آرام وآسائش کے سامان فراہم ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسی بے دل، نہتی اور کم تعداد کو ایسے مسلح اور کثیر دشمن سے بھڑا دینا اور پھر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے فتح حاصل کرنا ایسی مثال ہے جس کی نظیر مشکل ہے۔ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا پہلا تجربۂ کارزار تھا۔ (۵) فتح وشکست: دنیا نے بارہا دیکھا ہوگا کہ ایک قلیل جماعت ایک لشکرِ جرّار پر غالب آگئی ۔ لیکن ان حدود وقیود کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح پانا شاید دنیا بھر میں ایک ہی مثال ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے تربیت یافتہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنگ موتہ میں 3ہزار مسلمانوں کے لشکر سے ایک لاکھ عیسائیوں کا منہ پھیر دیتے ہیں‘ اور فائز المرام واپس آتے ہیں لیکن اگر حالات کی میزان میں دیکھا جائے تو جنگ بدر کی فتح اس سے زیادہ شاندار نظر آتی ہے۔ وجوہ درج ذیل ہیں! (۱) جنگ موتہ میں پہلے مسلمانوں کے تین سپہ سالار یکے بعد دیگرے شہید ہوجاتے ہیں۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے قلیل لشکر کو اس لشکر جرار سے بچا کر … پسپا ہوکر نہیں بلکہ ان کوپسپا کرکے… واپس لے آئے۔ دشمن کے کتنے |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |