اس سلسلے میں نپولین بونا پارٹ کا کردار اس ایک واقعہ سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کو ۱۷۹۹ء میں چار ہزار ترکی فوج نے اس شرط پر نپولین کی اطاعت قبول کی تھی کہ ان کی جان بخشی کی جائے۔ یہ مفتوح نہ تھی بلکہ نپولین سے امان یافتہ تھی۔ لیکن نپولین نے انہیں امان دینے کے باوجود اس بنا پر قتل کروادیا کہ وہ ان کے لیے خوراک مہیا نہیں کرسکتا۔ نہ ہی انہیں مصر روانہ کرسکتاہے۔ اس پہلو سے جب ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ دنیا کے تمام جرنیلوں سے بلند مقام پر نظر آتے ہیں۔ (۱۰)مفتوحہ علاقوں میں نظام عدل کا قیام: فتح کے بعد سب سے اہم مسئلہ مفتوحہ علاقہ میں نظام عدل کا قیام ہے۔ دنیوی فاتحین کے لیے یہ نہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے نہ اس کی ضرورت سمجھی گئی ہے۔ لیکن ایک اسلامی سپہ سالار کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہی یہ ہے۔ اور اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو جہاد کا مقصد ہی نظام عدل کا قیام ہے۔ اور اسلامی نقطہ نظر سے اصل کامیابی دشمن کو میدان جنگ میں شکست دینا نہیں بلکہ مفتوحہ علاقہ میں عدل وانصاف قائم کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ﴾(۲۲:۴۱) (یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین پر قبضہ دیں تو نماز قائم کریں زکوٰۃ ادا کریں ۔ اچھی باتوں کا حکم دیں اور بُری باتوں سے روکیں گے۔) آیت بالا میں نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا تعلق تو صرف مسلمانوں سے ہے مگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا کام پوری اطاعت گزار رعایا کو محیط ہوتا ہے۔ خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس فریضہ کو ادا کرنے کیلئے چار چیزوں کا اہتمام ضروری ہے۔ قیامِ امن ‘ تعلیم‘ احتساب اور فحاشی کا سدباب ۔ دورِ نبوی عرب کا سارا علاقہ اسلام کے زیر نگین آچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات صوبوں میں تقسیم کیا۔ ہر صوبہ میںایک والی مقرر کیا جاتا تھا ایک عامل اور ایک قاضی والی گورنر اور سپہ سالار دونوں کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ گویا داخلی امن اور دفاعی امور دونوں کا وہ ذمہ دار ہوتا تھا۔ عامل بیت المال کے انتظام پر مامور تھا۔ اور قاضی‘ جج یا صوبہ کے چیف جسٹس کے فرائض |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |