Maktaba Wahhabi

98 - 495
( ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحرا میں بایں حالت نماز ادا کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کوئی چیز نہ تھی۔(مسند امام احمد :1/444) وضاحت: اس روایت کو سید سابق رحمۃ اللہ علیہ نے سترہ کے استحباب کے پیش نظر اپنی کتاب فقہ السنۃ میں بیان فرمایا ہے لیکن روایت ناقابل استدلال ہے۔کیونکہ اس میں ایک راوی حجاج بن ارطاۃ ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔(مجمع الزوائد :2/66) اس کے علاوہ یہ مدلس بھی ہے اور اس نے مذکورہ روایت ''عن''کے صیغہ سے بیان کی ہے۔(تمام المنۃ:305) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔(الاحادیث الضعیفہ :رقم 5804) علامہ بیہقی نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ مذکورہ روایت کی تائید حضرت فضل بن عباس کی روایت سے بھی ہوتی ہے لیکن تائید میں پیش کی جانے والی روایت کے متعلق امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ منقطع ہے۔کیونکہ عباس بن عبید اللہ نے اپنے چچا حضرت فضل بن عباس کو نہیں پایا، اس کے علاوہ ماہر فن ابن قطان فرماتے ہیں کہ عباس بن عبید اللہ مجہول ہے جس کے حالات کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔(تمام المنۃ :305) ( نماز مغر ب سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنتیں پڑھنے کےلئے ستونوں کی طرف جلدی کرتے، مسجد نبوی میں اس قدر ستون نہ تھے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے سترہ کا کام دے سکتے۔اس سے معلوم ہوا کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سترہ کے بغیر نماز پڑھتے تھے۔ وضاحت: جس روایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اسے حضرت انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ جب مؤذن اذان دیتا تو کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوجاتے اور جلدی جلدی ستونوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے۔یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے۔(صحیح البخاری :625) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سترہ کا اہتمام کرتے۔کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سترہ کےلئے ستونوں سے کام لیتے ،باقی ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوجاتے۔پھر سامنے والی دیوار کو بھی سترہ بنا لیا جاتا تھا۔ ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ جب ایک چیز صحیح احادیث سے ثابت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے اسے مزید تقویت دی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس پر عمل پیرا نظر آتے ہیں، تو پھر اس قسم کے موہوم خدشات کے پیش نظر اسے نظر انداز کردیا جائے۔بہر حال اس قسم کے دلائل وجوب سے استحباب کے لئے ''قرینہ صارفہ '' نہیں ہوسکتے۔ ( امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بیان کی ہےکہ آپ نے ان لوگوں پر اعتراض کیا جو کہتے ہیں کہ کتے ،گدھے اور عورت کے آگے سے گزرنا قاطع صلوۃ ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاشکوہ تب ہی درست ہوسکتا ہے جب نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاؤں کوہاتھ لگاتے تو آپ اپنے پاؤں سکیڑ لیتیں اور جب آپ سجدے سے فارغ ہوجاتے تو پاؤں پھیلا دیتیں۔پاؤں کو سکیڑنا اور پھیلانا مرور ہی تو ہے؟
Flag Counter