Maktaba Wahhabi

25 - 40
آنے سے روک دینے کا تقاضا کر رہی تھی، تو ہمارے زمانے میں بے پردہ نکلنے کی اجازت کیوں کر دی جا سکتی ہے جبکہ عصر نبوی کو گزرے تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں۔ اخلاقی بے راہ روی عام ہو چکی ہے۔ شرم و حیا تقریبا رخصت ہو چکے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں دینی حمیت کمزور پڑ چکی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور فقیہ امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فہم بھی اسی نتیجے پر پہنچا جس کی شہادت شریعت کاملہ کی صریح نصوص دے رہی ہیں، یعنی اگر کسی کام کے نتیجہ میں ایسے امور سامنے آئیں جنہیں شریعت حرام قرار دیتی ہے تو وہ کام بھی شرعاً حرام ہو گا، خواہ بظاہر جائز ہی نظر آتا ہو۔ (4) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ من جر ثوبہ خیلاء لم ینظر اللہ الیہ یوم القیامۃ ‘‘ (صحیح بخاری، باب من جر ازارہ من غیر خیلاء ، ح: 5784) ’’ جو شخص تکبر کے ساتھ اپنی چادر لٹکا کر چلے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ ‘‘اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: تو عورتیں اپنی چادریں کس حد تک لٹکائیں؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک بالشت بھر لٹکالیں۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اس طرح تو ان کے پاؤں نظر آئیں گے۔ فرمایاتو ایک ہاتھ کے برابر کاٹ لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔ " مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت پر پاؤں ڈھانپنا فرض ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ یہ حکم تمام صحابیات رضی اللہ عنھن کو معلوم تھا اور بلاشبہ پاؤں
Flag Counter