وضاحت: برخوردار دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رات کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد پڑھتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے سامنے ہوتیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے سامنے بیٹھنے کو پسند نہ کرتیں، چنانچہ وہ پائنتی کی طرف سے کھسک کر لحاف سے باہر نکل جاتیں، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی سترہ نہیں ہوتا تھا ،لیکن روایت کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دو واقعات ہیں۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چار پائی پر ہوتیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اتر کر چار پائی کو سترہ بنا کر نماز پڑھتے۔اس صورت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنازہ کی طرح آپ کے سامنے لیٹی رہتیں، جب آپ کو ضرورت ہوتی تو پائنتی کی طرف سے کھسک کر باہر نکل جاتیں، اس میں آپ کے پاؤں کوہاتھ لگانے اور انہیں سمیٹنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس صورت پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:''چار پائی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا'' یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چار پائی بطور سترہ ہے۔اگرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھ کر چلی جاتیں تو چار پائی آپ کے سامنے رہتی اور سترے کا کام دیتی،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو متعدد مقامات پر بیان کیا ہے۔(508۔511۔512۔514۔519) دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بستر پر نماز پڑھتے جہاں عائشہ رضی اللہ عنہا لیٹی ہوتی تھی۔اس صورت میں سترہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی ہوتی ،چنانچہ سجدہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا کے پاؤں کو دباتے تو وہ ان کو سمیٹ لیتیں، سجدہ سے فراغت کےبعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا انہیں پھیلادیتیں۔اس واقعہ میں لحاف سے نکل کر باہر جانے کی صورت ہے۔اس روایت پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:''عورت کو سترہ بنا کرنوافل پڑھنا'' اسے بھی متعدد مقامات پر ذکر کیاہے۔(513'519'1209) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھا کہ گھر ،مسجد، آبادی، صحرا، منیٰ ،عرفات ،بیت اللہ الغرض جہاں بھی نماز پڑھتے سترہ کا اہتمام کرتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس پر عمل پیرا تھے۔اس لئے یہ نمازی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود سترہ کا اہتمام کرے۔اہل مسجد کی ذمہ داری نہیں کہ وہ متعدد'' سترات'' کا مسجد میں بندوبست کرکے رکھیں۔اس قسم کی سہولیات فراہم کرنا انتظامیہ کی ذمہ د اری نہیں ہے۔مومن کی یہ شان ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ صحیح احادیث سے ثابت ہوجائے تو وہ اس پر عمل پیرا ہونے کی فکر کرے۔نہ کہ اسے نظر انداز کرنے کےلئے موہوم خدشات یا پائے چوبین کا سہارا لے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ڈجکورٹ سے علی محمد (خریداری نمبر 2003) لکھتے ہیں کہ جب دوران جماعت پہلی صف مکمل ہوچکی ہوتو بعد میں آنے والا کسی دوسرے نمازی کا انتظار کرے یا صف کے پیچھے اکیلا کھڑا ہوجائے یا اگلی صف سے آدمی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملائے اور نماز شروع کردے۔ جواب۔دوران نماز اگر کوئی جماعتی آتا ہے تو اس کے لئے جماعت میں شمولیت کی تین صورتیں ممکن ہیں: (الف) وہ انتظار کرتا رہے کہ دوسرا آدمی آجائے اور اس کے ساتھ صف بنا کر نماز میں شامل ہوجائے لیکن ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے کیوں کہ حدیث میں ہے : ''جب تم میں سے کوئی نماز کےلئے آئے تو امام کو جس حالت میں پائے اسی حالت میں امام کےساتھ شامل |