Maktaba Wahhabi

96 - 495
پڑھ رہے تھے،اور ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی ،وہ آپ کے آگے سے گزرنا چاہتی تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بطن مبارک دیوار کے ساتھ لگادیا حتیٰ کہ اس بکری کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔(صحیح ابن خزیمہ :827) یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ گدھی اور کتیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے گھومتی رہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پرواہ نہ کریں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فرمایا ہے:'' کہ کتا 'گدھا'اور عورت ان کا نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز کا خشوع متاثر ہوتا ہے۔''(صحیح مسلم الصلوۃ 266) محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل میں تعارض ہوتو قول کوترجیح دی جاتی ہے اور فعل کو خصوصیت پر محمول کیا جاتا ہے۔چنانچہ پیش کردہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فعل بیان ہوا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد اقوال اس کے معارض ہیں۔لہذا ان اقوال کو ترجیح دی جائے گی۔مختصر یہ ہے کہ مذکورہ حدیث اس قابل ہی نہیں کہ اسے صحیح اور صریح احادیث کے مقابلہ میں پیش کیاجائے۔اگر کوئی ان کے معارضہ پراصرار کرتا ہے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بیان ہوا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مقابلے میں مرجوح ہے۔ ( حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مسند البزار کے حوالہ سے حدیث نقل کی ہے:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے کوئی چیز بطور سترہ نہ تھی جو ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل ہو۔''(نیل الاوطار :3/12) ہمارے نزدیک اس حدیث کی صحت مسلم نہیں ہے کیوں کہ اس کی سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق راوی ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔(تہذیب التہذیب :6/376) جن حضرات نے اسے صحیح کہا ہے انہوں نے اسے عبد الکریم الجزری خیال کیا ہے۔علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ جواب دیا ہے کہ اس سے مطلق سترے کی نفی نہیں ہوتی۔بلکہ ایسے سترہ کی نفی کرتی ہے جو لوگوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل ہو، جیسے بلند دیوار وغیرہ جو دونوں کے درمیان ایک دوسرے کو دیکھنے سے مانع ہو، محدث عراقی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔(مرعاۃ المفاتیح :3/499) لہذا ایسی محتمل روایت صحیح اور صریح احادیث کے خلاف دلیل نہیں بن سکتی۔ واضح رہے کہ ا س حدیث کے بنیادی الفاظ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :'' حضر ت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر سوار ہوکر آیا اور میں اس وقت قریب البلوغ تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت دیوار کے سوا کسی اور چیز کاسترہ کرکے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔صف کے کچھ حصے سے گزر کر میں اپنی سواری سے اترا اور گدھی کوچرنے کے لئے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہوکر شریک نماز ہوگیا۔کسی نے ا س وجہ سے مجھ پر اعتراض نہیں کیا۔''(صحیح بخاری :493) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے سترہ کو ثابت کیا ہے جبکہ امام بیہقی نے اس سے سترہ کی نفی کو ثابت کیا ہے۔ اور اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:''سترہ کے بغیر نماز پڑھنا''لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کامعاملہ انتہائی تعجب خیز ہے کہ وہ امام
Flag Counter