Maktaba Wahhabi

95 - 495
ہے ،پھر اہل علم کا اختلاف ہے کہ مسجد حرام میں سترہ ہوناچاہیے یا نہیں؟ اگر مسجد کے اندر سترہ کاتصور نہ ہوتا تو اس اختلاف کی چنداں ضرورت ہی نہ ہوتی۔ ایک استثنائی صورت: اگر کوئی شخص نماز کھڑی ہونے کے بعد شامل ہوا ہے تو بقیہ نماز ادا کرنے کےلئے اسے تلاش سترہ ضروری نہیں ہے بلکہ اس طرح کا لاحق مقتدی موجودہ ہیت میں ہی نماز مکمل کرے اور نہ ہی پیشگی کسی سترہ کے بندوبست کی ضرورت ہے۔ غزوہ تبوک کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فجر کے وقت ایک رکعت جماعت رہ گئی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں ادا فرمائی، حالت قضائی میں ثابت نہیں ہوسکا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سترہ کا اہتمام کیا ہو۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ستیانہ ضلع فیصل آباد سے حافظ محمد حماد لکھتے ہیں کہ آ پ نے اہل حدیث شمارہ نمبر 2 مجریہ 10 جنوری 2004ء میں نمازی کے سترہ کے متعلق لکھا ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو سترہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور بغیر سترہ کے نماز پڑھنے سے منع کیا ہے اورآپ کا امر وجوب اور نہی تکریم کے لئے ہے۔ہاں اگر کوئی قرینہ ہوا تو امر وجوب کی بجائے استحباب کے لئے ہوتا ہے ۔لیکن یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے کہ آپ کے امر کو وجوب کی بجائے استحباب پر محمول کیا جائے، پھر نہی سے مراد بھی نہی تحریم ہے۔ جس کامطلب یہ ہے کہ نماز کے لئے سترہ بناناواجب ہے۔اوراس کے بغیر نماز ادا کرنا حرام ہے۔(الی آخرہ) لیکن ہمارے سامنے کچھ ایسی احادیث اور آثار قرائن ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امر وجوب کے لئے نہیں بلکہ استحباب کے لئے ہے۔آپ ان کی وضاحت فرمائیں: ( حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہمراہ شہر سے باہر ہماری رہائش گاہ میں تشریف لائے ،وہاں صحرا میں آپ نے بایں حالت نماز ادا کی کہ آپ کے آگے سترہ نہیں تھا۔(ابو داؤد الصلوۃ 718) جواب۔ہم نے اپنے موقف کے لئے جو احادیث پیش کی تھیں وہ اپنے مفہوم میں صریح تھیں۔اس کے برعکس یہ جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں اگرصحیح ہیں تو اپنے مفہوم میں صریح نہیں ہیں۔پیش کردہ حدیث کے متعلق علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کاتبصرہ ہے کہ یہ باطل ہے۔اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ عباس بن عبید اللہ بن عباس ہاشمی جو اپنے چچا حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے اپنے چچا کو نہیں پایا ،اس انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔(محلیٰ ابن حزم :4/13) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس راوی کو ''مقبول'' لکھا ہے۔(تہذیب التہذیب :5/123) مقبول راوی کی روایت اس وقت قبول ہوتی ہے جب اس کی متابعت ہو ،لیکن مذکورہ حدیث کسی صحیح یا حسن حدیث سے نہیں ہوئی ،اگر ایک ضعیف حدیث کے مختلف طرق ہوں تو بعض اوقات اسے حسن لغیرہ کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ لیکن متعدد ضعیف روایات کا اجتماع انفرادی کمزوری کی تلافی نہیں کرسکتا، بہرحال یہ روایت ناقابل استدلال ہے۔ لہذا سترہ کا وجوب اپنی جگہ پر برقرار رہے گا۔ نیز پیش کردہ حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ گدھی اور کتیا آپ کے آگے کھیل رہی تھیں۔ آپ نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ حدیث کا یہ مضمون ان صحیح اور صریح احادیث کے خلاف ہے جن میں صراحت ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز
Flag Counter