Maktaba Wahhabi

84 - 495
جواب۔عام مشہور ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں ''الصلوۃ خیر من النوم'' کا اضافہ کیا، بعض مورخین نے بھی اولیات عمر رضی اللہ عنہ کے عنوان سے اس کا ذکر کیا ہے لیکن یہ بات سرے سے غلط ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو جو اذان سکھائی تھی ، اس میں یہ وضاحت موجود ہے کہ اگر صبح کی اذان ہوتو اس میں''الصلوۃ خیر من النوم'' دو مرتبہ کہا جائے۔(ابوداؤد :باب کیف الاذان) امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی '' باب الاذان فی السفر'' میں ا س کی صراحت فرمائی ہے۔ اس کے علاوہ بعض محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے کہ صبح کی اذان میں ''الصلوۃ خیر من النوم'' کہنے کا بیان ۔اس کے تحت چند احادیث بیان کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ مؤذن فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کہے تو اس کے بعد ''الصلوۃ خیر من النوم'' کہے۔''(صحیح ابن خزیمہ :1/202) در اصل رافضی پروپیگنڈہ کے تحت ایسا لکھا جاتا ہےکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں اس کا اضافہ کیا تھا۔درج بالا تصریحات کے بعد اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔بعض حضرات کو شاید ایک واقعہ سے یہ غلط فہمی ہوئی ہو۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:'' کہ ہمیں یہ بات پہنچی کہ ایک دفعہ کوئی خادم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس صلوۃ صبح کی اطلاع دینے کےلئے حاضر ہوا تو آپ اس وقت نیند فرمارہے تھے۔اس نے آپ کے پاس''الصلوۃ خیر من النوم '' کے الفاظ کہے ،اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان الفاظ کو صبح کی اذان میں رہنے دو۔''(موطا اما م مالک کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی النداء للصلوۃ ) اس کے متعلق ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں: (اولاً) اس اثر کی سند منقطع ہے۔لہذا یہ قابل استدلال نہیں۔(ثانیاً) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ ان الفاظ کا یہ محل نہیں ہے بلکہ انہیں صبح کی اذان میں رہنے دو، لہذا اس منقطع اثر سے وہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی جس کا سوال میں ذکر ہواہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ماسٹر صدیق صاحب کالا باغ ضلع ایبٹ آباد سے دریافت کرتے ہیں کہ''الصلوۃ خیرمن النوم'' کے الفاظ فجر کی پہلی اذان میں کہے جائیں یا دوسری اذان میں؟ جواب۔ہمارے ہاں بعض معاصر اہل علم کی جدید تحقیق یہی ہے کہ''الصلوۃ خیر من النوم'' کے الفاظ صبح کی پہلی اذان میں کہے جائیں۔اور حدیث میں جو اذان شب کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اس اذان کے ذریعے سوئے ہوئے کو متنبہ کردیا جائے ،اس کا تقاضا بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن سبیل المومنین کے طور پر امت میں جو شروع سے عمل چلا آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ان الفاظ کو دوسری اذان میں کہا جائے، اس کی بنیاد یہ ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ من السنة اذا قال المؤذن في اذان الفجر حي علي الصلوة قال الصلوة خير من النوم‘‘(صحیح ابن خزیمہ 1/202) سنت یہ ہے کہ جب مؤذن صبح کی اذان میں '' حي علي الصلوة '' کہے تو اس کے بعد'' الصلوة خير من النوم '' کہے۔ صحابی کا اس قسم کے الفاظ استعمال کرنا حدیث مرفوع کاحکم رکھتا ہے۔
Flag Counter