البتہ مسجد میں سا دگی کے سا تھ فو تگی کی اطلا ع اور نما ز جنا زہ کا اعلا ن کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے سر برا ہ حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کے فو ت ہو نے کی اطلا ع اور اس کے جنا زہ کا اعلا ن فر ما یا تھا ۔(مسند امام احمد ج 2ص241) (2)مر دوزن کے با ل تین طرح کے ہو تے ہیں : (۱)جن کے زا ئل کر نے سے شر یعت نے منع فر ما یا ہے، مثلاًمر د کی داڑھی اور مرد وزن کے ابروؤں کے با ل انہیں زا ئل کر نا حرا م اور نا جا ئز ہے ۔ (۲)جن کا زا ئل کر نا شریعت میں مطلو ب وپسندیدہ ہے مثلاً مردوز ن کے مو ئے بغل وز یر نا ف اور مرد کی مو نچھیں وغیرہ۔ شر یعت نے حکم دیا ہے کہ انہیں زائل کیا جا ئے ۔ (۳)جن کے زا ئل یا با قی رکھنے کے متعلق شر یعت نے سکو ت اختیا ر فر ما یا ہے مثلاً عورت کی دا ڑھی اور اس کی مو نچھیں وغیرہ ،ان کے متعلق شریعت نے کو ئی حکم نہیں دیا ہے، بلکہ انسا ن کے اپنے ارادہ اختیا ر پر موقو ف رکھا ہے، ایسی چیزوں کے متعلق شریعت کا قا عد ہ ہے کہ وہ قا بل معا فی ہیں ان کا عمل میں لا نا ، نہ لا نا دو نوں برا بر ہیں ۔(ابو داؤد : الا طعمۃ 3800) اب ان کے متعلق وجہ تر جیح تلا ش کر نا ہو گی وہ یہ ہے کہ عورت کو داڑھی اور مو نچھوں کے با ل اس قدرتی نسوا نی حسن میں با عث رکاوٹ ہیں ،پھر عورت کی خلقت ا ور جبلت کے بھی خلا ف ہیں ،لہذا ان زا ئد با لو ں کا زا ئل کر نا ہی شر یعت میں مطلو ب ہے ۔(واللہ اعلم ) (3)شریعت نے نو اقض وضو کی تعیین کر دی ہے کسی کو بر ہنہ دیکھنا نواقض وضو سے نہیں ہے، شر مگا ہ کو ہا تھ لگا نے سے وضو ٹو ٹ جا تا ہے، اس لیے جو خواتین مدت رضا عت کے بعد بچو ں کو نہلا تی ہیں اگر ان کا ہاتھ صا بن وغیرہ استعما ل کر تے وقت ان کی شر مگا ہ کو لگ جا ئے تو انہیں نما ز کے لیے نیا وضو کرنا ہو گا ۔ (4)عشاء کی نما ز کے بعد دو سنت پڑھنے کا احا دیث میں ذکر آیا ہے، دو نفل ادا کر نے کی صرا حت کسی حدیث میں نہیں ہے ،ہا ں وتر کے بعد دو رکعت ادا کرنے کا حکم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبا ر ک ملتا ہے وہ بھی ہمیں کھڑے ہو کر ادا کر نے چا ہئیں، انہیں بیٹھ کر ادا کر نا سنت نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں بیٹھ کر ادا کر نا آپ کا خا صہ ہے، اس کی تفصیل گزشتہ کسی فتویٰ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ (5)اگر ما ل نصا ب زکو ۃ کو پہنچ جا ئے اور وہ ضروریا ت سے فا ضل ہو اور اس پر سا ل گز ر جا ئے تو اس میں زکو ۃ واجب ہے اگر کو ئی زکو ۃ کا مستحق ضرورت مند ہے تو فو راً ادا کر دینا چا ہیے، امید ہے کہ ثوا ب میں کمی نہیں آئے گی، ہاں اگر کو ئی ضرورت مند وقتی طو ر پر سا منے نہیں ہے تو ثوا ب میں اضا فہ کے پیش نظر اسے رمضا ن تک مؤ خر کر نے میں کو ئی حر ج نہیں ہے، تا ہم بہتر ہے کہ جب بھی زکو ۃ وا جب ہو فو راً اس سے عہدہ برآہو جا ئے کیو ں کہ زند گی اور مو ت کے متعلق کسی کو علم نہیں وہ اللہ کے اختیا ر میں ہے اگر زکو ۃ دئیے بغیر اللہ کا پیغا م اجل آگیا تو اخرو ی با ز پر س کا اند یشہ ہے ۔ (6)خا و ند کو فطر ت و شر یعت کے دا ئرہ میں رہتے ہو ئے اپنی بیو ی سے تمتع کر نے کی اجا زت ہے، سوال میں ذکر کر دہ صورت اگر چہ شر یعت کے خلاف نہیں تاہم فطرت سے متصا دم ضرور ہے ۔(واللہ اعلم ) |