مشکل سے دستیا ب ہو تے ہیں، عوا م کو خو فزدہ کر نے کے لیے یر قا ن کا نا م بد ل کر ہیپا ٹا ئٹس رکھ دیا گیا ہے ،یہ مرض پہلے بھی مو جو د تھی لیکن اس کے جراثیم دیکھے نہیں جا سکتے تھے ،اس لیے نفسیا تی طو ر پر لو گو ں کو آرا م اور سکو ن تھا ،جب سے خو رد بینی آلا ت ایجا د ہو ئے ہیں ہیپاٹا ئٹس اے، بی ،سی دریافت ہو ا ،ہما ر ی معلومات کے مطا بق ڈی بھی دریا فت ہو چکا ہے، اس کے متعلق تحقیق و ریسر چ جا ر ی ہے، ہما ر ے خیا ل کے مطا بق مسلما نوں کے عقائد اور ان کی ما لی حا لت کمزور کر نے کا یہ مغربی پرو پیگنڈہ ہے جس کی وجہ سے ہم تو ہم پر ستی کا شکا ر ہو گئے ہیں اور علا ج اس قدر مہنگا ہے کہ ہم قرض پکڑ کر اس کا علا ج کرا تے ہیں ،ان حا لا ت کے پیش نظر ہما را سا ئل کو مشورہ ہے: (1)اللہ پر اعتقا د اور یقین رکھتے ہوئے حسب پرو گرا م شا دی کر دی جا ئے، اس پرو پیگنڈے سے خو فزدہ ہو کر اسے معرض التوامیں ڈا لنے کی کو ئی ضرورت نہیں ۔ (2)اگر وا لدین اس پرو پیگنڈے سے متأ ثر ہیں تو طے شدہ تا ر یخ پر نکا ح کر دیا جا ئے لیکن رخصتی کو ملتوی کر دیا جا ئے تا آن کہ بچے کا علا ج مکمل ہو جا ئے اور بچی کو بھی حفا ظتی ٹیکے لگا دئیے جا ئیں ۔ (3)اگر وا لد ین اس قد ر پر یشا ن ہیں کہ انہوں نے اس طے شدہ پرو گرا م کو ختم کر نے کا ارادہ کر لیا ہے تو ہما ر ے نز د یک یہ گنا ہ ہے کیوں کہ ایسا کر نا صلہ رحمی کے خلا ف ہے اور مغر بی اثرا ت سے متأ ثر ہو نا بھی مسلما ن کی شا ن کے خلا ف ہے ۔ (4)مو ت کا ایک وقت مقرر ہے، اس کا وقت آنے پر ہر انسا ن دنیا سے رخصت ہو جا ئے گا ،جدید طب کے مطا بق متعد ی امرا ض سے وہی متا ثر ہو تا ہے جس کے اندر بیما ر ی قبو ل کر نے کی صلا حیت ہو تی ہے اگر بیما ر ی مقدر میں ہے تو وہ آکر رہے گی، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ بچے کا علا ج کرا یا جا ئے بچی کو حفاظتی ادویا ت دی جا ئیں اور صلہ رحمی کے پیش نظر سنت نکا ح بر وقت ادا کر دی جا ئے، اللہ تعا لیٰ ہما ر ے عقا ئد و اعما ل کو محفو ظ رکھے اور اچھے اخلا ق کا مظا ہرہ کر نے کی تو فیق دے ۔ سوال۔قرآن مجید کی تلا وت با عث اجر و ثوا ب ہے رمضا ن المبا ر ک میں اس تلا وت کا ثوا ب کئی گنا بڑ ھ جا تا ہے ہما ر ے ہا ں ایک کتابچہ اس حوالہ سے تقسیم کیا جا تا ہے جس کا عنوا ن ہے :"صرف 9منٹ میں 9قرآن پا ک اور ایک ہزا ر آیا ت پڑھنے کا ثوا ب مل سکتا ہے اس میں احادیث کے حوا لہ جا ت بھی مو جو د ہیں حقیقت حا ل سے آگا ہ فر ما ئیں ۔(حا فظ عبد الغفا ر السہیل میا ں چنوں ) جوا ب ۔احا دیث میں بعض سو رتوں اور آیا ت کی فضیلت کے پیش نظر سوال میں مذکو رہ اعداد شما ر کو کا فی خیا ل کر لیا گیا ہے، مثلاً:سورۃاخلا ص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہا ئی قرآن کے برا بر بیا ن فر ما یا ہے ۔(صحیح بخا ری :فضا ئل قرآن 5013) محدثین کر ام نے اس کا مفہو م یہ بیا ن کیا ہے کہ قرآن کر یم احکا م، اخبا ر اور تو حید کے بیا ن پر مشتمل ہے ،چو نکہ اس میں تو حید خا لص بیا ن کی گئی ہے اس لیے اسے ثلث قرآن کے مسا وی قرار دیا گیا ہے، ا گر چہ بعض حضرات نے اس کی قرا ءت کے ثوا ب کو ایک تہا ئی قرآن پڑ ھنے کے ثواب کے برا بر بتا یا ہے ۔( فتح البا ر ی : ج 9ص77) لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ انسا ن سوال میں ذکر کر دہ اعدادو شما ر کی جمع و تفریق میں لگا رہے اور قرآن کر یم کی |