Maktaba Wahhabi

489 - 495
بے بنیا د ہو تو اتنی سی با ت سے جر م ثا بت نہیں ہو تا اور نہ ہی تیسرے آدمی کے بیا ن حلفی کو بنیا د بنا کر مشتبہ آدمی پر چو ر ی ڈا لی جا سکتی ہے بلکہ اگر مدعی کے پا س کو ئی ثبو ت نہیں ہے تو مد عی علیہ سے قسم لے کر اسے بے قصو ر قرار دیا جا ناہی منا سب ہے۔ سوال۔میر ے بھا نجے کی شا دی میر ی بھتیجی کے ساتھ ہو نا طے پا ئی ،منگنی وغیرہ تین سا ل قبل ہو چکی ہے جبکہ نکا ح 22دسمبر2004ءکو متو قع ہے۔ شومئی قسمت سے میر ے بھا نجے نے ازراہ ہمدردی کسی کو اپنا خو ن دینے کا ارادہ کیا جب خو ن چیک کرا یا تو پتہ چلا کہ اسے ہیپا ٹا ئٹس سی کا مر ض ہے، کچھ ڈاکٹر حضرات کی را ئے ہے کہ بھا نجے کی شا دی اس کی بھتیجی سے نہ کی جا ئے کیوں کہ شا دی کے بعد بیما ری کے جرا ثیم بھتیجی میں منتقل ہو سکتے ہیں اوراس کے لیے جا ن لیوا ثا بت ہو سکتے ہیں، اس صورتحا ل کے پیش نظر بھتیجی کے وا لدین اس شا دی سے خو فزدہ ہیں کہ اس نکا ح سے ہما ری بیٹی زیا دہ متا ثر ہو گی، شادی نہ ہو نے سے یہ بھی اند یشہ ہے کہ دو قر یبی رشتہ داروں کے در میا ن جدا ئی اور قطع تعلقی پیدا ہو جا ئے۔ برا ئے مہر با نی قرآن و سنت کی رو شنی میں دونو ں خاندانوں کی صحیح را ہنما ئی فر ما ئیں، آپ کے جوا ب کا شد ت سے انتظا ر ہے۔ (حفیظ الرحمن اسلام آبا د :خریداری نمبر 5826) جوا ب ۔دور جا ہلیت میں تو ہم پر ستی عا م تھی، یعنی بیما ریوں کے متعلق ان کاعقیدہ تھا کہ وہ اللہ کے حکم سے با لا با لا ذا تی اور طبعی طو ر پر متعدی ہیں گو یا وہ اڑکر دوسروں کو چمٹ جا تی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کا ابطا ل کر تے ہو ئے فر ما یا :" کہ کو ئی بیما ری متعدی نہیں ہو تی ۔‘‘(صحیح بخاری :5772) اس حد یث کا واضح مفہو م یہ ہے کہ کو ئی بیما ر ی طبع کے اعتبا ر سے دوسروں کو نہیں لگتی بلکہ اللہ کے حکم اور اس کی تقد یر سے دوسروں کو لگتی ہے جیسا کہ ایک دوسر ی روا یت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ر جا ہلیت کے عقیدہ فا سد کی نفی کر تے ہو ئے فر ما یا کہ کو ئی بیما ری متعد ی نہیں ہوتی تو ایک اعرا بی کھڑا ہو کر عر ض کر نے لگا کہ ہما ر ے او نٹ ریتلے میدا ن میں ہر نو ں کی طرح ہو تے ہیں، جب ان کے ہا ں کوئی خا ر شی اونٹ آجا تا ہے تو سب اونٹ خا ر ش زدہ ہو جا تے ہیں ۔اس کے جوا ب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ پہلے اونٹ کو خا ر شی کس نے بنا یا تھا ؟"(صحیح بخاری :الطب 5775) آپ کا جوا ب انتہا ئی حکمت بھرا تھا کیوں کہ اگر وہ جوا ب دیتے کہ پہلے اونٹ کو بھی کسی دوسر ے سے خا ر ش کی بیما ر ی لگی تھی تو یہ سلسلہ لا متنا ہی ہو جا تا اور اگر یہ جوا ب دیتے کہ جس ہستی نے پہلے اونٹ کو خا رشی بنا یا اسی نے دوسرے میں خا ر ش پیدا کر دی تو یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے تما م اونٹوں میں یہ فعل جا ر ی کیا ہے کیوں کہ وہ ہر چیز پر قا در ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی اس جا ہلا نہ عقیدہ کی بیخ کنی کی ہے ،چنا نچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجذو م یعنی کو ڑ ھی کا ہا تھ پکڑ ا اور اسے اپنے سا تھ کھا نا کھلا نے کے لیے پیا لہ پر ہی بٹھا لیا اور فر ما یا :"کہ اللہ پر بھرو سہ کر تے ہو ئے اور اس کا نا م لے کر کھا ؤ ۔‘‘(تر مذی :1817) صدیقہ کا ئنا ت حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی سیر ت طیبہ سے بھی یہی معلو م ہو تا ہے، چنا نچہ ان کا ایک غلام کو ڑ ھ کے مر ض میں مبتلا تھا ،وہ آپ کے برتنوں میں کھا تا اور آپ ہی کے پیا لہ سے پا نی پیتا اور بعض دفعہ آپ کے بستر پر لیٹ بھی جا تا تھا ۔(فتح البا ر ی :ص197ج10) ان احا دیث وو اقعا ت سے معلو م ہو تا ہے شریعت نے امرا ض کے وبائی طو ر پرلگ جا نے کی نفی فر ما ئی ہے، البتہ ان کے
Flag Counter