Maktaba Wahhabi

488 - 495
جوا ب۔ زما نہ جا ہلیت میں عورتیں اپنے حسن کو نکھا ر نے کے لیے بہت سے مصنو عی اور غیر فطری امو ر سر انجا م دیتی تھیں ،چنا نچہ ایسا کر نا دین اسلا م کے مزا ج کے خلا ف تھا، لہذا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور پر پا بندی لگا تے ہو ئے فر ما یا :" اللہ تعا لیٰ نے ایسی عورتوں پر لعنت فر ما ئی ہے جو سرمہ بھر نے اور بھروا نے والی ہیں ،غیر ابرو کے بال نو چنے والی ،حسن کی خا طر دا نتوں کے در میا ن فا صلہ کر نے والی اور اللہ کی سا خت کو تبدیل کر نے والی ہیں ۔(صحیح بخا ری ) اس حدیث کی وضا حت کر تے ہو ئے ابن جر یری طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عورت کو اپنی سا خت و خلقت تبد یل کر نا جا ئز نہیں ہے، البتہ کسی تکلیف کے پیش نظر تبدیلی لا ئی جا سکتی ہے، اسی طرح اگر عورت کے چہر ے پر داڑھی آجا ئے یا مو نچھیں اگ آئیں تو ان کا نو چنا بھی جا ئز نہیں ہے ۔ (فتح البا ری :10/377) امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ اس کا تعا قب کر تے ہو ئے لکھتے ہیں :" حسن کی خا طر ابرو کے با ل نو چنے حرا م ہیں تا ہم اگر عورت کی دا ڑھی یا مو نچھیں اگ آئیں تو ان با لوں کو زائل کر نا حرا م نہیں ہے بلکہ ہما ر ے نز د یک مستحب ہے ۔‘‘(شرح مسلم :14/106طبع مصر ) حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر یہ شر ط لگا ئی ہے کہ ایسا کر نے سے پہلے اپنے خا وند سے اجا زت لی جا ئے ۔(فتح البا ر ی) ہما ر ے نز دیک اس طرح کی پا بند ی لگا نا درست نہیں کیوں کہ اس سے ایک تو عورتوں کی نسوانیت مجروح ہو تی ہے، پھر یہ پا بندی اس حدیث کی زد میں بھی آتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عو رتوں کو مردوں جیسی شکل و شبا ہت اختیا ر کر نے سے منع فر ما یا ہے، اس لیے مصلحت کا تقا ضا یہی ہے کہ عورتوں کے لیے مو نچھوں وغیرہ کا زائل کر دینا جا ئز ہے اور اس میں شر عاً کو ئی قبا حت نہیں ہے، نیز غیر ضروری بالوں کی صفا ئی کے بعد غسل کر نا ضروری نہیں کیوں یہ با ل پلید نہیں ہیں ،البتہ صفا ئی اور نظا فت کے پیش نظر غسل کر لیا جا ئے تو بہتر ہے ۔(واللہ اعلم ) سوال۔ ایک شخص کی کچھ رقم چو ر ی ہو گئی اسے اپنے پا س آنے جا نے وا لے ایک دو ست کے متعلق شبہ تھا، اتفا ق سے ایک تیسرے شخص نے حلفیہ بیان دیا ہے کہ جس پر چو ر ی کا شبہ تھا اس نے میر ے رو بر و ا قرار جرم کر لیا لیکن جب معا ملہ کی تفتیش ہو ئی تو اس نے صا ف صا ف انکا ر کر دیا کہ میں نے نہ چوری کی ہے اور نہ ہی کسی کے پا س اقرار کیا ہے، اب کیا شر عی لحا ظ سے اس تیسر ے آد می کے بیا ن حلفی کو بنیا د بنا کر مشتبہ آد می پر چو ر ی ڈا لی جا سکتی ہے ؟ جوا ب۔ بشر ط صحت سوال واضح ہوکہ چو ر ی کا جر م ثا بت کر نے کے لیے مند رجہ ذیل دو طر یقے ہیں : (1)دو عا دل گوا ہ ملزم کے ارتکا ب کی عینی شہا دت دیں ۔ (2)ملزم خو د اقرارجر م کر ے کہ میں نے چو ر ی کی ہے، صورت مسئو لہ میں مذکو ر ہ با لا دو نو ں صورتو ں میں سے کو ئی بھی نہیں ہے، زیا دہ سے زیا دہ اقرار کی دھندلی سی ایک شہا دت ہے، وہ بھی انکا ر بعد اقرار کی صورت اختیا ر کر چکی ہے، اتنی سی با ت سے چو ر ی ثا بت نہیں ہو تی اگر ایک گوا ہ کی عدا لت ثا بت ہو جا ئے جو چوری کی گو اہی کے لیے ضروری ہو تی ہےتو اس کی گو اہی کے سا تھ مد عی کی قسم سے فیصلہ ہو سکتا تھا لیکن یہا ں یہ صورت بھی نہیں کیوں کہ چو ر ی کو ثا بت کر نے کے لیے ایک بھی عینی گوا ہ نہیں ہے، اند ریں حا لا ت اگر مد عی قسم اٹھانے پر آ ما دہ ہو جا ئے تو اس کی بنیا د کیا ہو گی ؟ اگر گوا ہ کی عدالت بھی مشتبہ ہوا ور مد عی کا قسم اٹھا نا بھی
Flag Counter