نو ٹ ۔گھر یلو خادمائیں اور کا روبا ری نو کر چا کر غلا م اور لو نڈی کے حکم سے خا ر ج ہیں ۔ سوال۔ ملتا ن سے محمد اجمل سوا ل کر تے ہیں کہ داڑھی کی شر عی حیثیت کیا ہے اور اس کی مقدار کے متعلق شر عی ہدا یت واضح کر یں کیا ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنا جا ئز ہے کتا ب و سنت کی رو شنی میں تفصیل سے آگا ہ کر یں ؟ جوا ب۔ واضح رہے کہ دا ڑھی شعا ئر اسلام سے ہے اور یہ ایک مسلما ن کے لیے شنا ختی علا مت اور امتیا زی نشا ن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کئی ایک طریقوں سے اس کی اہمیت سے آگا ہ فر ما یا ہے، چنا نچہ فرمان نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم ہے مشر کین کی مخا لفت کرو داڑھی بڑھا ؤ اور مونچھیں پست کرا ؤ ۔(صحیح بخا ری ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س ایرا نی مجو سیوں کا ذکر ہو ا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" یہ لو گ اپنی مو نچھیں بڑ ھا تے اور داڑھی منڈوا تے ہیں تم ان کی مخا لفت کرو اپنی داڑھی بڑ ھا ؤ اور مو نچھیں چھوٹی کرو ۔(ابن حبان :1/408) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتا ب یہو د نصا ری کی مخا لفت کرنے کے متعلق فر ما یا کہ :’’ تم ایک اپنی داڑھی بڑھا ؤ اور مو نچھیں پست کرو۔‘‘ (مسند امام احمد :5/265) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دا ڑھی بڑھا نے اور مو نچھیں پست کر نے کا حکم دیتے تھے ۔(صحیح مسلم ) واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکو رہ با لا حکم پا نچ مختلف الفا ظ سے مر وی ہے، ان کے متعلق امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ان تمام الفا ظ کا مطلب ہے کہ دا ڑھی کو اپنی حا لت پر چھو ڑ دیا جا ئے۔ حد یث کا بظا ہر یہی مطلب ہے۔ (شر ح نو وی :1/129) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مرو ی ہے :" کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھنی داڑھی وا لے تھے ۔‘‘ (شما ئل تر مذی ) ان تما م احا د یث کے علا وہ قرآن مجید میں ابلیس لعین کے حوا لہ سے یہ بیا ن ہوا ہے کہ میں انہیں حکم دو ں گا۔ چنا نچہ یہ لو گ اللہ کی خلقت کو تبد یل کر یں گے ۔(النسا ء ) اس آیت کر یمہ کے پیش نظر جن امو ر فطر ت میں اللہ نے تبد یلی کر نے کا حکم دیا ہے، وہ جا ئز اور مبا ح ہیں ،مثلاً :ختنہ کر نا، زیر نا ف با ل لینا اور بغلوں کے با ل اکھا ڑ وغیرہ ۔البتہ داڑ ھی کے متعلق تبد یلی کر نے کا کہیں بھی اللہ نے حکم نہیں دیا ہے، لہذا یہ کا م ان شیطا نی امو ر سے ہے جس کا اس نے اولاد آد م کو حکم دیا ہے اور وہ اس کی پیرو ی کر رہے ہیں، اس پہلو سے بھی داڑھی کے معا ملہ پر غو ر کر نا چا ہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س دوایرا نی آئے جن کی داڑھیاں مو نڈی ہو ئی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اظہا ر نفرت کر تے ہو ئے انہیں دیکھنا بھی گوا ر انہیں کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :کہ مجھے تو میر ے ر ب نے دا ڑھی بڑھا نے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بر عکس ایک روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کے طو ل و عر ض سے کچھ با ل لے لیا کر تے تھے ۔(ترمذی ) یہ روا یت محد ثین کے معیا ر صحت پر پو ر ی نہیں اترتی اور یہ روایت صحیحین کی متعدد روا یا ت کے بھی خلا ف ہے، لہذا اس قسم کی روا یت سے نہ تو کو ئی مسئلہ ثا بت ہو تا ہے اور نہ ہی تر جیح کے لیے اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ بعض حضرا ت جنا ب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کا سہارا لے |