کر دا ڑھی کی کا نٹ چھا نٹ کو جا ئز سمجھتے ہیں لیکن یہ عمل سنت صحیح کے خلا ف ہے، اس لیے قا بل حجت نہیں ،پھر ان کا یہ عمل صرف حج و عمرہ کے مو قع پر تھا ،وہ ہمیشہ کے لیے عا م حا لا ت میں اسے معمو ل نہیں بنا تے تھے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اعفا ء اللحیہ وا لی حدیث کے راوی بھی ہیں ۔ محدثین کا اصول ہے کہ جب کسی راوی کا عمل اس کی بیان کر دہ روایت کے خلا ف ہو تو روا یت کا اعتبا ر ہو تا ہے اس کے عمل کی کو ئی حیثیت نہیں ہو تی۔ کتب و حدیث میں اس کی کئی مثا لیں مو جو د ہیں جنہیں پیش کر نے کی اس فتویٰ میں گنجا ئش نہیں ہے ان تمام بیان کر دہ روا یا ت کا تقا ضا ہے کہ دا ڑھی رکھنا ضروری ہے اور اس میں کا نٹ چھا نٹ کر نا شر عاً جا ئز نہیں ۔(واللہ اعلم با لصوا ب ) سوال۔ منڈی احمد آبا د سے محمد منشا ء سا جد دریا فت کرتے ہیں کہ گھروں کی چھتوں پر جو جا لا وغیرہ ہو تا ہے کیا یہ نحو ست کی علا مت ہے اور جو مکڑی جا لا بنتی ہے اسے ما ر نا شر عاً کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ جوا ب ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اپنے گھروں کو صا ف ستھرا رکھو، یہود کی مخا لفت کرو ،و ہ اپنے گھروں میں گند گی اور کو ڑا کرکٹ پھیلا تے ہیں۔ (کتا ب الکنی للد ولابی:2/137) اس حدیث کی بنا پر جو چیز بھی گھروں کی صفا ئی اور نظا فت میں حا ئل ہو گی اسے دور کر نا ضروری ہے، مکڑی کا جا لا نحو ست کی علا مت خیا ل کر نا در ست نہیں ہے، البتہ اجا ڑ اور بے آبا دی کی علا مت ضرور ہے، جبکہ ہمارے گھر آبا د ہو تے ہیں، ان سے اجا ڑ کی علا متوں کو دور کر نا چا ہیے، اگر مکڑی کو ما ر نے کے بغیر جالا وغیرہ اتا ر دیا جا ئے تو وہ خو د کہیں اور بسیرا کر لے گی، اگر گھر سے دور نہ ہو تو اس کے ما ر نے میں کو ئی موا خذہ نہیں ہو گا ،اگر چہ رو ایا ت میں ہے کہ اس نے اس غا ر پر جا لا بن دیا تھا جہا ں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ داخل ہو ئے تھے ۔(مسند امام احمد :1/347) اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو اس وجہ سے وہ قا بل تکر یم نہیں ہو سکتی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تکر یم بصرا حت ثا بت نہ ہو جا ئے، بہرحال ہمیں اپنے گھروں کو صا ف ستھرا رکھنے کا حکم ہے اور یہ مکڑی اور جا لا گھروں کی صفا ئی میں حا ئل ہو تے ہیں، لہذا ختم کر نا ضروری ہے ۔ سوال۔شیخو پو رہ سے محمد لطیف سوال کر تے ہیں کہ سر کے با لو ں کی شرعی حیثیت اور مقدار کیا ہے ؟ جوا ب۔ کتب حدیث میں مرو ی مختلف روا یا ت سے پتہ چلتا ہے کہ سر کے با ل مو نڈ ے جا سکتے ہیں اور شر یعت نے ایسا کر نے کی اجا زت دی ہے البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمو ل یہ تھا کہ آپ کے با ل رکھے ہوتے تھے اور ان کی مقدار مختلف اوقا ت میں مختلف ہو تی تھی کبھی نصف کا نو ں تک اور کبھی کا نو ں کی لو ؤں تک بڑھ جا تے، بعض اوقات کند ھوں تک بھی پہنچ جا تے اور کبھی گیسو کی شکل اختیا ر کر لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس کے با ل ہو ں وہ انہیں سنوارنے کا پا بند ہے، سنوا ر نے میں تیل لگا نا ،کنگھی کر نا اور درمیان سے مانگ نکا لنا شا مل ہے لیکن افسو س ہما ری اکثر یت آج کل مغر بی تہذیب سے متأ ثر ہے، فینسی با ل اور ٹیڑھی ما نگ نکا لنے پر فخر کیا جا تا ہے،حا لا نکہ ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمو لا ت کے خلا ف ہے ۔ |