استعما ل میں لا ئے جن میں الکحل کی آمیز ش ہو ئی ہے۔ بد قسمتی سے اس وقت فن طب میں تمام تر تر قیا ت ایسے لو گوں کے ہا تھوں سے ہو ئی ہیں جو حلا ل و حرا م کی تمیز سے عا ر ی ہیں، انہوں نے بیشتر ادویا ت میں الکحل کو دوا سا زی کے لیے مفید پا کر بکثرت استعما ل کیا ہے، ہمیں ان سے پر ہیز کر نا چا ہیے۔ (واللہ اعلم بالصواب ) سوال۔ ملتا ن سے اما ن اللہ خا ن در یا فت کر تے ہیں کہ اسلا م میں لونڈی اور غلا م رکھنے کی کیا حیثیت ہے اور اس کی حدود و قیو د اور شرائط کیا ہیں ؟ جوا ب۔ دین اسلا م میں کئی طریقوں سے غلا موں اور لو نڈیوں کو آزاد کرنے کی تر غیب دی گئی ہے جس کے نتیجہ میں آج کل لو نڈی سسٹم تقریباً نا پید ہے، لہذا اس کے متعلق سوالا ت ذہنی مفروضہ تو ہو سکتا ہے، البتہ ضروریا ت زند گی کے سا تھ اس کا کو ئی تعلق نہیں ہے، مسئلہ کی وضاحت با یں طو ر ہے کہ غیر مسلم اقوام کے سا تھ جنگ کے مو قع پر جو مرد عورتیں مسلما نوں کے ہا تھ آئیں انہیں شر عاً غلا م اور لو نڈی کہا جاتا ہے، ان کے متعلق اسلا می قا نو ن یہ ہے کہ تمام اسیر ان جنگ کو حکومت وقت کے حو الہ کر دیا جا ئے،کسی سپا ہی یا فو جی کو حکو مت کی پیشگی اجا زت کے بغیر ان میں تصرف کر نے کا اختیا ر نہیں ہے، البتہ حکومت ان کے متعلق در ج ذیل اقدا ما ت میں سے کو ئی ایک منا سب اقدا م کر سکتی ہے: (1)ان پر احسا ن کر تے ہوئے روا داری کے طور پر انہیں بلامعاوضہ رہا کر دیا جا ئے ۔ (2)ان سے فی کس مقررہ شرح کے مطا بق فد یہ لے کر انہیں چھو ڑ دیا جا ئے ۔ (3)جو مسلما ن قیدی دشمن کے ہا تھ میں ہو ں ان سے تبا دلہ کر لیا جا ئے۔ (4) انھیں مال غنیمت سمجھتے ہوئے،مسلمان سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس مؤخرالذ کر صورت میں گر فتا ر شدہ عورتوں سے جنسی تعلقا ت قائم کر نے کے متعلق ہما رے ذہنوں میں بے شما ر خد شا ت ہیں انہیں دور کرنے کے لیے اسلام کے مند ر جہ ذیل اصول و ضو ابط کو پیش نظر رکھا جائے۔ (1)حکو مت وقت کی طرف سے کسی سپا ہی کو لو نڈی کے متعلق حقو ق ملکیت مل جا نا ہی اس کا نکا ح ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے با پ اپنی بیٹی کا عقد کسی دوسرے شخص سے کر دیتا ہے جس طرح با پ نکا ح کے بعد اپنی بیٹی وا پس لینے کا مجا ز نہیں ہو تا اسی طرح حکو مت کو بھی کسی سپا ہی کی ملکیت میں دینے کے بعد وہ لونڈی وا پس لینے کا اختیا ر نہیں ہے، اس بنا پر مسلمان سپا ہی بھی صرف اسی عورت کے سا تھ صنفی تعلقا ت قا ئم کر نے کا مجا ز ہے جو حکو مت کی طرف سے ملی ہو ۔ (2)جو عورت جس کے حصہ میں آئے صرف وہی اس سے صنفی تعلقا ت قائم کر سکتا ہے کسی دو سرے شخص کو اسے ہا تھ لگا نے کی اجا زت نہیں ،ہاں اگر حقیقی ما لک کسی کے سا تھ اس کا نکا ح کر دے تو اس صورت میں دوسرے شخص کو حق تمتع حا صل ہو جا تا ہے لیکن اس صورت میں اصل مالک اس لو نڈی سے دیگر خد ما ت تو لے سکتا ہے لیکن تمتع کی اجا زت نہیں ہو گی ۔ (3)جس شخص کو کسی لو نڈی کے متعلق حق ملا ہے تو وہ اس وقت صنفی تعلقا ت قا ئم کر سکے گا جب اسے یقین ہو جا ئے گا کہ وہ حا ملہ نہیں ہے۔ اس کا ضا بطہ یہ ہے کہ ایک مر تبہ ایا م ما ہو اری آنے کا انتظا ر کیا جا ئے ،حمل کی صورت میں وضع حمل تک انتظا ر کر نا ہو گا۔ |