پھر پسینہ کی وجہ سے اس میں نا گوا ر ہوا آنے لگی تو آپ نے اسے اتا ر دیا ۔(مسند امام احمد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام خا لد رضی اللہ عنہا بن خا لد کو خو د اپنے دست مبار ک سے سیا ہ چا در پہنا ئی ،پھر آپ نے خو د ہی اس کی تحسین فرما ئی ۔(صحیح بخا ری :کتا ب اللبا س ) امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر یو ں عنوا ن قا ئم کیا ہے: با ب الخمیصہ السوداء "سیا ہ چا در پہننے کا بیا ن۔ اس سے حضرت امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ کے میلا ن کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کے جوا ز کے قا ئل ہیں، البتہ اظہا ر غم کے لیے سیا ہ لبا س نہیں پہننا چا ہیے کیوں کہ ہما ر ے معا شرہ میں ایک مخصوص گرو ہ کے نز دیک سیا ہ لبا س ما تمی لبا س ہے ۔ (2)نما ز عید کھلے میدا ن میں پڑھنا مسنون ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفا ءرا شدین رضی اللہ عنہم نما ز عید کھلے میدا ن میں پڑھتے تھے، حدیث میں ہے کہ کان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یخرج یو م الفطر والاضحیٰ الی المصلیٰ ۔(بخا ری ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن (نماز کی ادائیگی کے لیے ) عید گا ہ کی طرف جاتے۔ یہ عید گا ہ مد ینہ کی آبا دی سے با ہر ایک جنگل میں وا قع تھی۔ اگر کوئی عذر شر عی مثلاً: با ر ش، آندھی یا زیا دہ سر دی ہو تو مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن با ر ش ہو گئی تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نما ز عید مسجد میں پڑھا ئی ،اگر چہ اس حدیث کی سند کمزور ہے جیسا کہ حا فظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔( التلخیص الحبیر، ص:83/2) تا ہم مجبو ر ی کے وقت مسجد میں نماز عید ادا کی جا سکتی ہے، جب اہل مسجد مستقل عید گا ہ بنا نے کی پو زیشن میں نہ ہوں تو مسجد میں نما ز ادا کر نے میں کو ئی حرج نہیں، عا م حا لا ت میں نما ز عید آبا دی سے با ہر کسی پا ر ک یا میدا ن میں ادا کر نی چا ہیے کیوں کہ یہ شو کت اسلا م کا مظہر اور مسلما نو ں کے با ہمی اتحا د اتفا ق کی علا مت ہے، ایسا کر نا رحمت الہی کے نزول کا با عث اور خیرو بر کت کے حصو ل کا ذر یعہ ہو گا۔ شا ہ جیلا نی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ’’ عید کی نما ز آبا دی سے با ہر کھلے میدا ن میں پڑھنا چا ہیے، مسجد میں بلا عذ ر شر عی عید پڑھنا بہتر نہیں ہے ۔‘‘(غنیۃ الطا لبین ) (3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفا ئے را شدین رضی اللہ عنہم نما ز عید کا خطبہ منبر کے بغیر ار شا د فر ما تے تھے۔ امام بخا ر ی نے اپنی صحیح میں ایک عنوا ن بایں الفا ظ قا ئم کیا ہے:’’ با ب الخروج الی المصلی بغیر منبر ‘‘ عید گا ہ منبر کے بغیر جا نے کا بیا ن۔ روا یا ت میں ہے کہ نما ز سے فرا غت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لو گو ں کی طرف منہ کیا اور خطبہ کے لیے اپنی جا ئے نما ز میں کھڑے ہو ئے ۔(ابن ماجہ ) وہیں اپنے پا ؤں پر کھڑے کھڑے خطبہ ارشا د فر ما یا ( صحیح ابن خزیمہ ) ان روا یا ت کو بیا ن کر نے کے بعد حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ہذا مشعر با نہ لم یکن با لمصلیٰ فی زما نہ منبر ۔(فتح البا ری : 579/2) یہ روا یا ت اس با ت کی دلیل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نہ میں عید کے مو قع پر منبر نہیں ہو تا تھا ۔اگر چہ ایک روا یت میں صرا حت ہے کہ جب آپ خطبہ سے فا ر غ ہو ئے تو منبر سے اتر ے۔ (ابو داؤد : ابو اب الضحا یا ) لیکن یہ روا یت ضعیف ہو نے کی وجہ سے ناقا بل اعتبا ر ہے کیوں کہ اس میں ایک راوی مطلب کا سما ع حضرت جا بر رضی اللہ عنہ |