مسلمانوں کو پھا نسنے کے لیے عمل میں لا ئی جا تی ہیں تا کہ ان کے سا منے اہل بیت کے ساتھ اپنی خو د سا ختہ محبت کا اظہار کر کے ان کے جذبا ت سے کھیلا جائے، واضح رہے کہ یہ سب کچھ دینداری کی آڑ میں کیا جا تا ہے جس پر کتا ب و سنت سے کو ئی دلیل نہیں دی جا تی ،لہذا ایسا کر نا نا جا ئز ہے مسلما نوں کو اس قسم کی بدعا ت سے اجتنا ب کر نا چا ہیے۔ (3)شرک کا لغوی معنی حصہ داری ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفا ت اور حقوق و اختیا را ت میں کسی طور پر غیر کو شر یک کر نا یا اس کا عقیدہ رکھنا شر ک ہے، اس کی مز ید وضا حت یہ ہے کہ جو چیزیں اللہ تعا لیٰ نے اپنے لیے خا ص کی ہیں اور انہیں اپنے بندوں کے لیے نشا ن بندگی ٹھہرا یا ہے انہیں کسی اور کے لیے ثا بت کر نا شر ک ہے، مثلا سجدہ کر نا، نذر ماننا، مشکل کے وقت پکا ر نا، کا ئنا ت میں ہر قسم کے تصر فا ت کی طا قت رکھنا، یعنی اللہ کے علا وہ کسی دوسرے کو داتا ،حا جت روا ،مشکل کشا ،غر یب نوا ز ،گنج بخش، بگڑی بنا نے اور تقدیر سنوار نے والا خیا ل کر نا شر ک اکبر کے زمرے میں آتا ہے جو خا لص تو بہ کے بغیر معا ف نہیں ہو گا۔ ریا کا ری اور غیر اللہ کے نا م پر قسم اٹھا نا بھی شرک ہے لیکن اسے شر ک اصغر کہا گیا ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے تما م انبیا ء علیہم السلام کو تو حید پھیلا نے اور شر ک مٹا نے کےلیے بھیجا۔ اللہ تعا لیٰ اس سے ہمیں محفوظ رکھے ۔ (4)ان رسو ما ت کی کو ئی شر عی حیثیت نہیں ہے بلکہ اس قسم کے جملہ امور بد عا ت میں شا مل ہیں کیوں کہ انہیں دین کا حصہ سمجھ کر اور ثوا ب کی نیت سے کیا جا تا ہے، نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم سے کو ئی ایسا ثبو ت نہیں ملتا جو ان کا مو ں کی بجا آوری کے لیے بطو ر دلیل پیش کیا جائے۔ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ما ن ہے کہ جو کوئی ایسا کا م کر تا ہے جس پر ہماری طرف سے مہر تصدیق ثبت نہیں، وہ مر دود ہے اس بنا پر یہ بد عات ایجا د بند ہ ہیں ہر مسلما ن کو اس سے اجتنا ب کر نا چا ہیے ۔ (5)اگر ایک ہی معا ملہ کے لیے متعدد قسمیں اٹھا تا ہے تو ایک ہی قسم کا کفا رہ ادا کر نا ہو گا خوا ہ مجلس ایک ہو یا متعدد کیوں کہ اس صورت میں قسم پہلی ہی ہے با قی تا کید کے طو ر پر ہیں لیکن اگر واقعا ت مختلف ہیں جن کے لیے قسمیں اٹھا تا ہے تو اگر انہیں تو ڑے گا اتنی ہی دفعہ کا کفا رہ ادا کر نا پڑے گا۔ قرآن کر یم کی وضا حت کے مطا بق قسم تو ڑ نے کا کفا رہ یہ ہے کہ دس محتا جوں کو اوسط درجے کا کھا نا کھلا یا جا ئے جو عا م طو ر پر اپنے اہل و عیا ل کو کھلا یا جا تا ہے یا دس مسا کین کو کپڑے دئیے جائیں یا ایک غلا م آزاد کیا جا ئے یا اگر ان سے کو ئی بھی میسر نہ ہو تو تین دن کے رو زے رکھے جا ئیں ۔(5/ الما ئدہ : 89) سوال۔محمد منو ر بن ذکی احمد ریا ض سعود یہ سے دریا فت کر تے ہیں کہ ایک سلفی العقیدہ شخص اپنی عا م زند گی میں سیا ہ لبا س پہن سکتا ہے یا نہیں ؟ نیز بتا ئیں کہ عید کی نما ز مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے جبکہ کو ئی مستقل عیدگا ہ نہ ہو کیا نماز عید کا خطبہ منبر پر دیا جا سکتا ہے ؟ جواب۔(1)سیاہ لبا س کی مما نعت کے متعلق کو ئی صحیح حدیث مر وی نہیں ہے بلکہ روا یا ت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خو د سیا ہ لباس زیب تن فر ما یا، چنانچہ حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کا بیا ن ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے اون کا ایک سیا ہ جبہ تیا ر کیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنا ۔(ابو داؤد :کتا ب اللبا س ) بعض روا یا ت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا فر ما تی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنا تو آپ کا سفید رنگ اور جبہ کا سیاہ رنگ ایک عجیب سما ں پیدا کر رہا تھا ،کبھی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید مکھڑے کو دیکھتی اور کبھی لبا س کی سیا ہ رنگت کو دیکھتی |