ہے۔ لیکن اگر مخا طب سا منے ہے تو دل میں کہہ دیا جا ئے تا کہ وہ ہما ر ے اکا بر کے متعلق بدز با نی نہ کر یں اگر کسی اہل سنت امام نے اپنی لا علمی کی وجہ سے رافضی کی نما ز جنا زہ پڑھا ئی ہے تو اسے معذور تصور کیا جا ئے اور اگر دانستہ طو ر پر ایسا کا م کیا ہے تو وہ بہت بڑے جر م کا مر تکب ہو ا ہے۔ افہا م و تفہیم کے ذریعے اس جر م کی سنگینی کا اسے احسا س دلا یا جا ئے، ہنگامہ درست نہیں اور نہ ہی ایسا کر نے سے نکا ح ٹو ٹتا ہے، اگر امام کو اس فعل پر کو ئی ندا مت نہ ہو بلکہ وہ اپنے فعل کے صحیح ہو نے پر اصرار کر تا ہے تو ایسے امام کو امامت سے معزول کر دیا جا ئے کیوں کہ در پر دہ وہ روافض کا حما یتی ہے، اللہ تعا لیٰ ہما ر ے دل میں صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کی محبت پیدا فر ما ئے اور ان کی عزت و نا مو س کے دفا ع کی تو فیق دے۔ (واللہ اعلم ) سوال۔ ہا رو ن آبا د سے محمد اکر م در یا فت کر تے ہیں کہ : (1)با غ فدک کی حقیقت اور اس کی شر عی حیثیت کیا ہے ؟ (2)عبا س علمبر دار کے جھنڈے اٹھا نا جا ئز ہیں یا نا جا ئز ؟ (3)شر ک کیا ہے اور اس میں کو نسی کو نسی چیزیں شا مل ہیں ؟ (4)قل خوانی ، ساتواں اور چا لیسواں کی شرعی حیثیت کیا ہے واضح کر یں ؟ (5) ایک آد می متعدد دفعہ قسمیں اٹھا کر انہیں تو ڑ دیتا ہے ان حا لا ت میں کفا رہ کیسے ادا ہو گا ؟ جوا ب ۔ شمالی حجا ز میں واقع خیبر کے قر یب فدک ایک بستی کا نا م ہے جو پا نی کے قدرتی چشموں اور کھجوروں کے با غا ت پر مشتمل تھی ۔خیبر کی طرح اس میں بھی یہود ی کاشتکا ر آبا د تھے ۔ جب خیبر فتح ہوا تو فدک کے با شندوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخو است کی کہ اگر آپ ہمیں امان دے دیں تو ہم اپنی جملہ جا ئیداد چھو ڑکر یہا ں سے کہیں اور چلے جاتے ہیں ۔آپ نے ان کی درخو است کو منظو ر فر ما لیا اس طرح یہ گا ؤں کسی قسم کی جنگی کارروائی کے بغیر فتح ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پیداوار سے اپنے اہل و عیا ل کے اخرا جا ت اور دیگر ذاتی ضروریا ت کو پو را کر تے اور با قی اللہ کی راہ میں صرف کر دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا ت کے بعد فد ک کی زمین اور اس کے با غا ت کے متعلق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تقا ضا کیا کہ فدک کا خطہ میرے وا لد بزرگو ار کی میرا ث کے طور پر میر ے حوالے کیا جا ئے۔ حضرت ابو بکر صد یق رضی اللہ عنہ نے آپ کے مطا لبہ کو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشا د کے پیش نظر تسلیم نہ کیا ۔آپ نے بطو ر دلیل فر ما ن نبوی پیش کیا: ’’ہما را کو ئی وارث نہیں ہو گا ہم نے جو کچھ بھی چھو ڑا ہے وہ صدقہ ہے ۔‘‘(بخا ری :کتا ب فرض الخمس ) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مزید فر ما یا : کہ اس خطہ کی پیداوار اسی مصرف میں استعمال ہو گی جس میں خو د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استعما ل فرما یا کر تے تھے، اہل بیت کی ضرور یا ت کو حسب سا بق پو را کیا جا تا رہے گا ۔ حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے اس اصولی مو قف سے اتفا ق نہ کیا بلکہ کبیدہ خا طر ہو ئیں، بالآخر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی تیمار داری کے لیے ان کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا کو را ضی کر لیا ۔ (2)عبا س علمبر دار کے جھنڈے اٹھا کر مخصوص دنوں میں گھو متے پھر نا یہ تما م ایک خا ص مکتبہ فکر کی شعبدہ با زیاں ہیں جو سا دہ لو ح |