Maktaba Wahhabi

477 - 495
پکا را جا ئے گا تا کہ نا جا ئز اولا د کے با پوں پر ستر پو شی ہو سکے۔ یہ حدیث عقل اور نقل کے لحا ظ سے نا قا بل اعتبا ر ہے کیوں کہ زا نی کو عقلی شر عی اور قا نو نی طو ر پر کسی وقت بھی بطور باپ تسلیم نہیں کیا گیا ہے، اگر عورت شا دی شدہ ہے تو خا وند کے گھر جو اولا د پیدا ہو گی اس کی نسبت خا وند کی طرف کی جا ئے گی، خوا ہ وہ اس کے نطفہ سے نہ ہو، حدیث میں ہے : الو لد للفراش وللعا ہر الحجر۔ (صحیح بخا ری )زانی کے حصہ میں تو پتھر ہیں، البتہ بچے کی نسبت خا و ند کی طرف ہو گی ۔ اگر خا وند اس کا انکا ر کر دے تو لعا ن ہو نے کی صورت میں ما ں کی طرف منسوب کیا جا ئے گا، اس زا نی کی طرف نسبت نہیں ہو گی، ویسے یہ حدیث فنی لحا ظ سے صحیح نہیں ۔حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق کہتے ہیں: سندہ ضعیف جدًا"(فتح البا ری :10/79) اس کی سند انتہا ئی کمزور ہے۔ اس مو ضو ع پر حا فظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تفصیل سے لکھا ہے ۔(تہذیب السنن : 7/ 250) ان قرائن اور شواہد کے پیش نظر ہما را مو قف یہ ہے کہ قیا مت کے دن انسا ن کو اس کے با پ کے نا م سے پکا را جا ئے گا اور صرف مندرجہ ذیل کی نسبت ماں کی طرف ہو گی ۔ (1)حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔ (2) لعا ن شدہ بیوی خا و ند کا متنا زعہ بچہ بھی ما ں کی طرف نسبت کر کے پکا را جا ئے گا ۔ (3)غیر شا دی شدہ ما ں کی اولا د بھی زا نیہ کی طرف منسو ب ہو گی ۔ جب زا نی انسا ن کو کو ئی شر عی اور قا نو نی حیثیت نہیں ہے تو قیا مت کے دن ان کی پردہ پو شی کی قطعاً کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔ سوال۔لا ہو ر سے ابو عکا شہ در یا فت کر تے ہیں کہ جب را فضی مؤذن علی ولی اللّٰه وصی رسول اللّٰه وخلیفتہ بلا فصل کہے تو کیا اہل سنت سا معین کو یہ سن کر لعنۃ اللّٰه علی الکا ذ بین کہنا درست ہے یا نہیں ،نیز ایک را فضی کا جنا زہ اہل سنت امام نے پڑھا یا ہے ،ہما ر ے ہاں مشہور ہے کہ اس کا نکا ح ٹو ٹ گیا یا اسے اپنی بیوی سے دو با رہ نکا ح کر نا ہو گا کیا یہ صحیح ہے ؟ جواب۔روافض درا صل یہود مجو س کی مشتر کہ سا ز ش کی پیداوار ہیں، انہوں نے عقا ئد و نظر یا ت اور عبا دا ت و معا ملا ت کے متعلق ایک ایسا متوا زی دین قا ئم کر رکھا ہے جو دین اسلا م کے با لکل متصادم ہے، اذا ن میں علی ولی اللّٰه وصی رسول اللّٰه وخلیفتہ بلا فصل جیسے کلما ت کا اضا فہ ان کے ہاں را ئج متوا زی دین کی ایک مثا ل ہے، یہ اضا فہ خلا ف اسلام ہے بلکہ صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم با لخصوص خلیفہ راشد سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلاف بغض و عداوت کی ایک بد تر ین مثا ل ہے۔ ایما نی غیر ت کا تقا ضا یہی ہے کہ اس طرح کے جھوٹ پر مبنی کلما ت سن کر لعنۃ اللّٰه علی الکا ذ بین کہا جائے۔انسان کو حق پر ستی کے جو ش میں مخا طب کو اند ھا بہرا کر دینے والی با ت نہیں کہنا چا ہیے ،مبا دا وہ بھی بد ز با نی پر اتر آئے اور وحی الہیٰ کے اولین مخاطبین اور اصل حا ملین اسلام کے متعلق یا وہ گو ئی شرو ع کر دے۔ قرآن کر یم میں اس قسم کا انداز اختیار کر نے سے منع فر ما یا ہے، ار شا د با ر ی تعا لیٰ ہے: اللہ کے سوا یہ مشر کین جن کو پکا ر تے ہیں تم انہیں گا لی نہ دو کہ ( اس کے نتیجہ میں ) وہ تجا وز کر کے جہا لت کی وجہ سے وہ اللہ کو گا لیا ں دیں گے ۔ (6/الانعا م : 109) صورت مسئولہ میں اگر اس قسم کے جھو ٹے کلما ت سننے وا لا اکیلا ہے یا چند ایک ہم ذہن ہیں تو اس لعنت کا بر ملا اظہا ر کیا جا سکتا
Flag Counter