جا تی ہے ان پر دم ہو جا ئے جیسا کہ ہما ر ے ہا ں کسی وقت پیر سپا ہی دم کیا کر تا تھا یا ٹیپ ریکا رڈ ر کے ذریعے دم شدہ کیسٹ سے کسب فیض کر نا یہ سب خلا ف عقل و نقل ہے، اس بنا پر گھر سے دور کسی عزیز پر آیۃ الکر سی پڑھ کر دم کر نا درست نہیں ہے ۔(واللہ اعلم ) سوال۔ تحصیل چیچہ وطنی سے ایک صا حب در یا فت کر تے ہیں کہ قیامت کے دن انسا ن کو با پ کی طرف سے منسوب کر کے آواز دی جائے گی،یا ما ں کی طرف منسو ب کر کے پکا را جائے گا ؟ واضح رہے کہ باپ کی طرف منسو ب کر کے پکا ر ے جا نے کی روا یت صحیح نہیں ہے، جیسا کہ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضا حت کی ہے، اس کے متعلق ہما ر ی راہنما ئی کر یں ۔ جوا ب۔ سوال میں ذکر کر دہ روا یت حسب ذیل ہے : "قیا مت کے دن تمہیں تمہا رے با پ کے نا م سے پکا را جا ئے گا، لہذا اچھے نا مو ں کا انتخا ب کیا کرو ۔ (دارمی :کتا ب الاستیذان ،ابو داؤد:کتا ب الاد ب،مسند امام احمد :ص 5/ 194) اس روایت کا دا رو مدا ر ایک راوی عبد اللہ بن ابی زکر یا الخزا عی پر ہے جس کے متعلق اما م ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ملا قا ت نہیں کی ۔ حا فظ منذری اس کے متعلق مز ید وضا حت کر تے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی زکر یا کی کنیت ابو یحییٰ ہے ،خو د ثقہ اور عا بد ہیں لیکن حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے اس کا سما ع ثا بت نہیں ہے، اس بنا پر یہ حد یث منقطع ہے۔ (مختصر ابو داؤد ) اگر چہ علا مہ نو وی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ابو داؤد نے اس روایت کو جید سند سے بیا ن کیا ہے اور مشہو ر ہے کہ عبد اللہ بن زکر یا نے حضرت ابودرد اء رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو سنا ہے۔ (شر ح مہذب ) لیکن صحیح با ت یہی ہے کہ یہ حدیث سند کے لحا ظ سے کمزور ہے، جیسا کہ خو د امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے حو الہ سے لکھا ہے، لہذا اس طرح کی رو ایت کو بطو ر دلیل نہیں پیش کیا جا سکتا ہے ،البتہ امام المحد ثین حضر ت بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کو ایک اور اندا ز سے ثابت فر ما یا ہے، چنا نچہ انہوں نے ایک با ب با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے کہ لو گو ں کو ان کے باپ کے نا م سے پکا را جا ئے گا۔ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ابو داؤد کے مفہو م کو عنوا ن کے طو ر پر ذکر کیا ہے کیوں کہ وہ حدیث ان کی شر ائط کے مطا بق نہ تھی، پھر بطو ر دلیل ایک اور حدیث کو پیش کیا ہے کہ قیا مت کے دن غداری کر نے والے پر ایک جھنڈا لہرا یا جا ئے گا اور اعلا ن کیا جا ئے گا یہ فلاں بن فلا ں کی غداری کی وجہ سے ہے ۔(صحیح بخا ری، کتا ب الادب ) اس حدیث میں غدا ری اور بے وفا ئی کی مذمت بیا ن کی گئی ہے اور اس با ت کی بھی نشا ندہی کی گئی ہے کہ قیا مت کے دن انسا ن کو اس کے باپ کی طرف منسو ب کر کے آواز دی جا ئے گی ۔(فتح البا ر ی : 10/69) ابن بطا ل اس کی شر ح بیا ن کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے ان لو گوں کی تر دید ہو تی ہے جن کا مو قف ہے کہ قیا مت کے دن ستر پو شی کے طو ر پر انسا نو ں کو ان کی ما ؤں کی طرف منسوب کر کے پکا را جائے گا۔ اس قو ل مر ددو کی تا ئید ایک حدیث سے بھی ہو تی ہے جسے امام طبرا نی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روا یت کیا کہ قیا مت کے دن لو گوں کو ان کی ما ؤں کے نا م سے |