سنگین جر م ہو نے کے با و جو د شرک نہیں ہے، جیسا کہ سوال میں ظا ہر کیا گیا ہے بلکہ ایک کبیرہ گناہ ہے ۔ہدایۃ المستفید میں کو ئی ایسا جملہ نہیں ہے جس سے فو ٹو اتر وا نا شر ک معلوم ہو تا ہو، اس کی عبا رت حسب ذیل ہے : ’’یہی تصویر مصور کے لیے قیامت کے دن بہت بڑی مشکل اور عذا ب کا سبب بن جا ئے گی کہ مصور کو اس کا مکلف ٹھہرایا جا ئے گا کہ اس تصویر میں روح ڈالے لیکن وہ ایسا ہر گز نہ کر سکے گا ،لہذا اسے سخت تر ین سزا دی جا ئے گی کیوں کہ تصویر کبیرہ گنا ہوں سے ہے۔‘‘ (ہدایۃ المستفید : 1537) مختصر یہ ہے کہ تصویر بنانا اور بنوا نا دو نوں کبیرہ گنا ہ ہیں شر ک کے زمر ہ میں نہیں آتا ۔جر م اور سزا کے لحا ظ سے تصویر بنا نا، بنوا نا اور اسے استعما ل کر نا برا بر حیثیت رکھتا ہے، بشر طیکہ کسی واقعی مجبو ری کے پیش نظر ایسا نہ کیا گیا ہو۔ (فتح البا ر ی : 10 / 39 ) ہذا ما عندی واللّٰه اعلم با لصوا ب سوال۔ عبد القدوس بذر یعہ ای میل در یا فت کر تے ہیں کہ حد یث میں’’ قرن الشیطا ن ‘‘ کا ذکر آتا ہے اس کا مطلب وضا حت سے لکھیں ۔ جوا ب ۔’’ قر ن الشیطا ن‘‘ کا ذکر جس حدیث میں ہے اس کا تر جمہ یہ ہے :حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ اہل عرا ق سے خطا ب کر تے ہوئے فر ما یا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے فر ما تے ہو ئے دیکھا کہ خبر دار فتنہ ادھر سے رو نما ہو گا، بلا شبہ فتنہ اسی طرف سے ظا ہر ہو گا جہا ں سے شیطا ن کا سینگ طلو ع ہو تا ہے ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الفتن) مد ینہ منورہ سے عراق مشر ق کی طرف پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں کی آما جگا ہ سر زمین عراق ہے، اس میں شک نہیں ہے کہ سر زمین عراق بڑی ہنگا مہ خیز اور فتنہ پر ور واقع ہو ئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکو رہ با لا پیش گو ئی کے مطا بق یہ منحو س خطہ اسلا م اور اہل اسلام کے خلا ف اٹھنے والے فتنوں کی آما جگا ہ ہے، قو م نو ح کے بت ود ا ور سواع وغیرہ عرا ق ہی میں تھے، حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے خلا ف آگ کا الاؤ تیار کر نے والا نمر ود ا سی عراق کا فر ما نروا تھا ۔حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ بھی عراقی لو گو ں نے بر پا کیا تھا ،نوا سۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر نے والے بھی عرا قی کو فی تھے اور یہ واقعہ بھی سر زمین عراق میں رو نما ہو ا ،اب بھی یہ خطہ اس قسم کے فتنوں کی بد تر ین مثا لیں قائم کیے ہو ئے ہے ۔ سوال۔ گو جرا نو الہ سے قا ر ی حفیظ الر حمن اطہر لکھتے ہیں کہ ایک دینی مدرسہ کو لو گو ں کی عد م دلچسپی کی وجہ سے سکو ل میں بد ل دیا گیا ہے جہاں اردو ، انگریزی ،حسا ب، سا ئنس اور کمپیو ٹر کی تعلیم کے سا تھ صحا ح ستہ کے منتخب ابو اب اور قر آن کر یم کے تر جمہ و تفسیر کی تعلیم بھی دی جا تی ہے، اب بعض طلباء فیس ادا کر نے سے قا صر ہیں کیا زکو ۃ ،چر مہا ئے قربا نی اور فطرا نہ و عشر وغیرہ سے اخرا جا ت کو پو را کیا جا سکتا ہے ؟ جوا ب ۔ صورت مسئولہ میں لو گو ں کی عد م دلچسپی کی وجہ سے ایک دینی مدر سہ کی عما ر ت کو عصر ی سکو ل میں تبد یل کر دیا گیا ہے، چو نکہ ادارہ ہذا ایک سکو ل ہے اور دنیاوی تعلیما ت کو ہی اولین حیثیت حا صل ہے، دینی تعلیما ت ثا نو ی حیثیت میں ہیں وہ بھی صحا ح ستہ کے منتخب ابوا ب اور قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کی حد تک ہیں۔ اگر چہ دینی تعلیم کے ساتھ دنیا وی تعلیم کی پیوندکا ر ی |