جا ئے گا، جب وہ حقو ق کے متعلق پا ک صا ف ہو جا ئیں گے تو جنت میں داخل ہو نے کی اجا زت دی جا ئے گی ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الرقاق ) واضح رہے کہ قیا مت کے دن زر مبا دلہ کے طو ر پر انسا ن کی نیکیا ں اور برا ئیاں ہی کا م آئیں گی، لہذا ضروری ہے کہ معا ملا ت کے متعلق انسا ن ہلکا اور پا ک صا ف ہو تا کہ دنیا میں اس کی کی ہو ئی محنت دوسروں کے کھا تے میں نہ پڑ جا ئے ،حقوق العبا د کے متعلق ارشاد با ر ی تعا لیٰ ہے کہ اگر کسی نے ایک را ئی کے دانے کے برابر بھی کسی کا حق ما را ہو گا اسے سا منے لا یا جا ئے گا ۔(21/الاانبیا ء :47) لہذا ہمیں حقو ق العبا د کے متعلق بہت حسا س ہو نا چا ہیے، ما لی معا ملا ت کے علا وہ دیگر حقو ق کا بھی خیا ل رکھنا چا ہیے ۔ سوال۔ محمد یو نس بذر یعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ آیا کو ئی مسلما ن تندرستی کی حا لت میں اپنی محنت سے کما یا ہو ا سا را ما ل جسے چا ہے دے سکتا ہے یا نہیں ؟ جوا ب ۔اللہ تعا لیٰ نے انسان کو خود مختا ر بنا کر دنیامیں بھیجا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کے دا ئرہ میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عطا کر دہ نعمتوں کو جیسے چاہے استعما ل کر سکتا ہے، ما ل و جا ئیداد بھی اللہ کی ایک نعمت ہے اس میں تصرف کر نے کا اسے پو را پو را حق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ما ن ہے : ہر ما ل دار اپنے ما ل میں تصرف کر نے کا زیا دہ حق رکھتا ہے ۔(بیہقی:6/175) اس بنا پر صورت مسئو لہ میں کو ئی بھی مسلما ن تند رستی کی حا لت میں اپنا ما ل جسے چا ہے دے سکتا ہے لیکن مندرجہ ذیل با توں کا خیا ل رکھے : (1)یہ تصرف کسی نا جا ئز اور حرا م کا م کے لیے نہ ہواور نہ ہی حرا م کاری کے لیے کسی کو دیا جا ئے ۔ (2)جا ئز تصرف کر تے وقت کسی شرعی وارث کو وراثت سے محروم کر نا مقصود نہ ہو ۔ (3)اگر تصرف بطو ر ہبہ اولا د کے لیے ہے تو نر ینہ اور ما د ینہ اولا د کے سا تھ مسا و یا نہ سلوک کیا جا ئے ۔ (4)اگر یہ تصر ف بطو ر وصیت عمل میں آئے تو کل جا ئیداد کے 3/1سے زیا دہ نہ ہو نا چا ہیے اور وصیت شر عی وارث کے لیے بھی نہیں ہو نی چا ہیے، شرائط با لا کو ملحو ظ خا طر رکھتے ہو ئے اپنی زندگی میں بحا لت تندرستی اگر کو ئی اپنی تما م جا ئیداد دینا چا ہتا ہے تو اسے ایسا کر نے کی اجا ز ت ہے ۔ (واللہ اعلم ) سوال۔ عبد الر شید بذر یعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ حدیث میں فو ٹو بنا نے کے متعلق و عید آئی ہے کیوں کہ فو ٹو اتر وا نے والا بھی اس وعید کی زد میں میں آتا ہے ،ہدا یۃ المستفید میں ہے کہ فو ٹو اتروا نا شر ک ہے، اس کی وضا حت فر ما ئیں ۔ جواب ۔ واضح رہے کہ جر م کے لحا ظ سے تصویر بنا نے بنوا نے اور اس کے استعما ل کر نے میں کو ئی فر ق نہیں ہے کیوں کہ جہا ں تصویر بنا نے وا لے کو قیامت کے دن کہا جا ئے گا کہ تم اس تصویر کو زندہ کرو بصورت دیگر اسے سخت سزا سے دو چا ر کیا جا ئے گا وہاں تصویر استعما ل کر نے کے متعلق بھی وعید ہے کہ جہاں تصویر ہو گی وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، نیز فیشن کے طو ر پر تصویر بنوا نے والا ہی تو تصویر بنائے جا نے کا با عث ہو تا ہے، اس لیے بنوانے والا دونوں جر م میں برابر کے شر یک ہیں لیکن یہ اقدا م |