Maktaba Wahhabi

472 - 495
اس آیت کر یمہ میں پا کیزہ چیزوں کے حلال کر دینے سے اس با ت کی طرف اشا رہ ہے کہ اگر اہل کتا ب پا کی و طہا رت کے قوا نین کی پا بندی نہ کر یں تو ان کے کھا نے سے پر ہیز کر نا چا ہیے، اس بنا پر ایک عیسا ئی کی عیسا ئیت اس کے ہا تھ کا پکا ہو ا کھا نا استعما ل کر نے سے رکا و ٹ نہیں ہونی چا ہیے بلکہ اس کی بد پرہیز ی اور پا کی پلید ی میں تمیز نہ کر نا رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اسی طرح عیسا ئی اگر کسی بر تن میں کھا نا لیتا ہے وہ بر تن پلید نہیں ہو جا تا جسے دھونے کی ضرورت ہو، ہا ں اگر وہ کو ئی نجس چیز استعما ل کر تا ہے تو اسے نجا ست کی وجہ سے پا ک کر نا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خو د ایک مشر کہ عورت کے مشکیزہ سے پا نی لے کر استعمال فر ما یا تھا، اس مشکیزہ کو وہ عورت خو د بھی استعمال کر تی تھی ،نیز اگر عیسا ئی سلام کے وقت ہا تھ بڑھا تا ہے تو اس سے مصا فحہ کر نے میں چندا ں حر ج نہیں ہے، البتہ عیسا ئی اور یہو دی کو ابتدا ء سلام نہ کیا جا ئے ،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اہل کتا ب کو سلام کہنے میں ابتدا نہ کر و ،اسی طرح اگر عیسا ئی السلا م علیکم کہتا ہے تو اسے جوا ب میں صرف علیکم کہا جائے، احا دیث میں اس کی وضا حت مو جو د ہے، واضح رہے کہ ہما ر ے اور عیسا ئی کے در میا ن کو ئی چھوت چھا ت نہیں کہ ہم ان سے میل جو ل بند کر دیں بلکہ اس معا ملہ میں ہمیں حکمت عملی سے کا م لیتے ہو ئے ان کے ساتھ خندہ پیشا نی سے پیش آنا چا ہیے تا کہ انہیں دعوت اسلا م پیش کر نے کے لیے را ستہ ہموار ہو ۔ سوال۔ محمد حسین بذریعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ ایک بیوہ اپنے بھائی کے پا س رہتی ہے، اس کا بھا ئی اس کے تمام اخرا جا ت پو رے کرتا ہے، کیا بیوہ کے لیے جا ئز ہے کہ وہ بلا اجا زت اپنے بھا ئی کے گھر سے کو ئی چیز اٹھا لے ؟ جوا ب ۔اللہ تعا لیٰ نے اپنے بندوں پرجو حقو ق اور فرا ئض عا ئد کیے ہیں دو طرح کے ہیں : (1)حقوق اللہ۔ (2)حقوق العباد۔ سوال میں ذکر کر دہ بیوہ کا بھا ئی کے گھر سے بلا اجا زت کو ئی چیز اٹھا نے کا تعلق حقوق العبا د سے ہے اگر کو ئی ایسی چیز اٹھا ئی جا تی ہے جس کی عا م طور پر پروا نہیں کی جا تی تو امید ہے کہ اللہ کے ہا ں ایسی چیزوں کے بارے میں با ز پر س نہیں ہو گی ،اس کے بر عکس ایسی چیز اٹھا ئی جا تی ہے جن کا ما لک ضرورت مند ہے تو اگر بھا ئی نے مطلق طو ر پر اسے اجا ز ت نہیں دی ہے تو قیا مت کے دن ایسی اشیا ء کے بلا اجا زت استعما ل پر ضرور مؤا خذہ ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د گرا می ہے: جس کسی نے اپنے بھائی کا حق دبا یا ،اسے چا ہیے کہ اپنے لیے اس سے خلا صی کی کو ئی سبیل پیدا کر ے کیوں کہ قیا مت کے دن وہاں در ہم نہیں ہو ں گے بلکہ وہاں تو اس کی نیکیا ں لے کر حق تلفی کی جا ئے گی اگر نیکیاں نہ ہو ئیں تو حقدار کو اس کا حق دینے کے لیے اس کی برا ئیا ں حق دبا نے والے کے کھا تے میں ڈا ل دی جا ئیں گی ۔(صحیح بخاری ،کتا ب الرقاق ) اس حدیث کے پیش نظر بہن کو چا ہیے کہ وہ اپنے بھا ئی کی بلا اجا زت اٹھائی ہو ئی چیز واپس کر ے ، اگر وہ مو جو د نہیں بلکہ انہیں استعما ل کر لیا گیا ہے تو ان کی قیمت ادا کر ے یا اپنے بھا ئی سے معا ف کر والے کیوں کہ قیا مت کے دن پیش آنے والی ندا مت سے بہتر ہے کہ دنیا میں ندامت اٹھا لے ۔حدیث میں ہے کہ اہل جنت کو اس وقت تک جنت میں داخل ہو نے کی اجا زت نہیں دی جا ئے گی جب تک ان کے با ہم معاملات اور لین دین صا ف نہیں ہو جا تے بلکہ جنت میں دا خل ہو نے سے انہیں ایک پل پر روک لیا
Flag Counter