Maktaba Wahhabi

471 - 495
ہو نے وا لا کھا نا استعما ل کر سکتے ہیں جبکہ یہ کھا نا ما ل زکو ۃ سے تیا ر کیا گیا ہو ۔(عبد الو حید ،ملتا ن ) جوا ب۔ دینی مدارس میں پڑھا نے وا لے سا دات یا غیر سا دات اسا تذہ سے یہ معا ملہ طے شدہ ہو تا ہے اگر وہ انفرادی طو ر پر مدرسہ میں رہا ئش رکھیں گے تو انہیں حق الخد مت کے طو ر پر تنخو ا ہ کے علا وہ قیا م و طعا م بھی دیا جا ئے گا، اہل مدرسہ کے پا س جب صدقہ یا زکو ۃ کا ما ل پہنچ جا تا ہے تو اس کی حیثیت بد ل جا تی ہے جیسا کہ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کے متعلق کتا ب الزکو ۃ میں ایک عنو ا ن با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے :’’با ب اذا تحولت الصد قۃ ‘‘ یعنی جب صد قہ کی حیثیت بد ل جا ئے ۔ شارح بخاری حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس عنوا ن کی وضا حت کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ فقد جا ز للھا شمی تنا و لہا یعنی سا دا ت کے لیے اس کا استعما ل جا ئز ہے، امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل کے طو ر پر حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث پیش فر ما ئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ام المؤ منین سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا کے پا س تشریف لا ئے اور کہا کہ تمہا رے پا س کچھ کھا نے کے لیے ہے ؟حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ آپ نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ کے ما ل سے جو بکر ی دی تھی اس نے کچھ گو شت ہمیں بھیجا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ وہ صدقہ اپنے مقا م کو پہنچ چکا ہے (اس لیے اس کا استعما ل ہما رے لیے جا ئز ہے )۔ اس طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س کچھ گو شت لا یا گیا، دریا فت کر نے پر بتایا گیا کہ یہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ پر صد قہ کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ گو شت بر یرہ کے لیے صدقہ تھا ہما ر ے لیے ہد یہ ہے۔ (صحیح بخا ر ی :کتا ب الحبۃ ،با ب قبو ل الحبۃ ) حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ نے ان دو نو ں حدیثو ں سے یہ مسئلہ ثا بت کیا ہے کہ سا دا ت خا ندا ن سے متعلق کسی شخص کو فرا ہمی زکو ۃ پر مقرر کیا جا ئے تو اس کے لیے ما ل زکو ۃ سے اجر ت لینا جا ئز ہے کیوں کہ وہ اپنے کا م کا معا وضہ لے رہا ہے صدقہ نہیں لے رہا ۔(فتح الباری : 3/ 357) مذکو رہ وضا حت کے پیش نظر دینی مدارس میں پڑھا نے وا لے اساتذہ خواہ سا دات ہوں یا غیر سا دات ا نہیں مدرسہ کی طرف سے دئیے جا نے والے کھا نے کو تنا ول کر نے میں کو ئی حر ج نہیں ہے۔ بعض حضرات کھانے کے عوض مدرسہ کے کھا تہ میں رقم جمع کر نے کا تکلف کر تے ہیں۔ اخروی ثوا ب کے پیش نظر تو ایسا کیا جا تا ہے لیکن سادات خا ندا ن سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ایسا کر نا محض تکلف ہے۔ اسی طرح مدرسہ کے زیر اہتمام اگر کو ئی مسجد کی ضرورت ہو تو مد رسہ کی رقم مسجد کی ضروریا ت پر بھی خر چ ہو سکتی ہیں ۔ سوال۔کیا عیسا ئی کے ہا تھ کا پکا ہو ا کھا نا ہم کھا سکتے ہیں اگر عیسا ئی ہمارے بر تن میں کھا نا کھا تے ہیں تو اس بر تن کو کتنی مر تبہ دھو نا چاہیے، نیز اگر عیسا ئی سلام کے وقت ہا تھ بڑھا ئے تو کیا مصا فحہ کر لینا چاہیے یا ہا تھ پیچھے کھینچ لیا جا ئے ۔ (عبد المتین، چیچہ وطنی ) جوا ب۔واضح رہے کہ عیسا ئی کے ہا تھ کا پکا ہو ا کھا نا استعما ل کیا جا سکتا ہے، بشر طیکہ وہ صفا ئی و نظافت اور پا کی و طہا ر ت کا خیا ل رکھے، اس کے متعلق ارشا د بار ی تعا لیٰ ہے :" کہ آج تمہا ر ے لیے تمام پا کیزہ چیزیں حلا ل کر دی گئی ہیں اور اہل کتا ب کا کھا نا تمہا ر ے لیے حلا ل ہے اور تمہا را کھا نا ان کے لیے حلا ل ہے ۔ (5/ المائد ہ :5)
Flag Counter