Maktaba Wahhabi

466 - 495
ان احا دیث کا تقاضا یہی ہے کہ مشر کین، بے دین لو گوں، آتش پرستوں اور یہود و نصا ری کی مخا لفت کر تے ہو ئے داڑھی بڑھانا اور مو نچھیں پست کرا نا ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھا نے اور مونچھیں پست کر نے کو امو ر فطر ت سے شما ر کیا ہے، لہذا اس داڑھی کو اپنی حا لت پر رہنے دیا جا ئے، لغوی لحا ظ سے بھی "لحیۃ "کی تعریف یہ ہے کہ وہ با ل جو رخسا روں اور ٹھو ڑی پر اگے ہو ں انہیں داڑھی کہا جا تا ہے، چنانچہ المعجم الو سیط میں با یں الفا ظ اس کی تعر یف کی گئی ہے : "شعرالخدین والذقن " رخسا روں اور ٹھو ڑی کے با ل داڑھی کہلا تے ہیں، اس لیے رخسا روں پر اگنے والے با ل بھی داڑھی کا حصہ ہیں جن کا کاٹنا جا ئز نہیں، صورت مسئولہ میں اگر رخسا روں کے با ل واقعی آنکھوں کے لیے با عث تکلیف ہیں (اگر چہ یہ صورت ابھی تک ہمار ے مشا ہدہ میں نہیں آئی )تو انہیں کا ٹا جا سکتا ہے کیوں کہ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :"اللہ تعا لیٰ دین کے معا ملہ میں تم پر تنگی نہیں کر نا چا ہتا ۔‘‘(الحج ) یا د رہے کہ مجبو ر ی کے وقت اس گنجا ئش کو اپنے فیشن کی تکمیل کے لیے بطو ر بہا نہ استعما ل نہ کیا جا ئے ۔ سوال۔ چو نیا ں سے را نا محمدسلیم دریا فت کر تے ہیں کہ اگر کو ئی عورت شر عی پردہ کے سا تھ گا ڑی چلا تی ہے تو اس کی شر عی حیثیت کیا ہے ؟ جوا ب۔مرد اورعورت اگر چہ بنیا دی طو ر پر’’نفس واحدۃ ‘‘ کی پیدا وار ہیں تا ہم فطری طو ر پر مر د جفا کش اور عورت نا زک مزا ج ہو تی ہے، ان دو نو ں کی بناوٹ و سا خت کا لحا ظ رکھتے ہو ئے خا لق نے ہر دو نو ں کا دا ئرہ کا ر بھی الگ الگ متعین فر ما یا ہے، اجنبی مر د اور عورت کے با ہمی اختلا ط کو نا جا ئز ٹھہرا یا تا کہ ایسا کر نا ان کے لیے کسی قسم کے فتنہ کا با عث نہ ہو۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مردوں اور عورتوں کو راستہ میں اکٹھے چلتے ہو ئے دیکھا تو عورتوں سے مخا طب ہو کر فر ما یا: ایک طرف ہٹ جا ؤ، ر ا ستہ کے درمیا ن میں چلنا تمہا را حق نہیں ،را ستہ کے کنار ے پر چلو ۔ (ابو داؤد، کتا ب الادب ) اس فر ما ن نبوی کے بعد صحا بیا ت دیوا رو ں کے سا تھ سا تھ چلتیں، بعض دفعہ ایسا ہو تا کہ ان کے کپڑ ے دیوا روں سے چپک جا تے، اس کے علا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اند یشۂ اختلا ط کے پیش نظر عورتوں کو جنا زہ کے سا تھ چلنے سے منع فر ما یا ہے ۔ (مسند ابی یعلی : بحو الہ فتح البا ر ی ؛ 3/ 182) ان تصر یحا ت سے معلو م ہو تا ہے کہ شریعت کی نظر سے وہ کا م بھی حرام ہیں جو ارتکا ب حرا م کا پیش خیمہ یا ذر یعہ ہو ں ،صورت مسئولہ کا شر عی پر دہ کے سا تھ ڈرا ئیونگ کر نا بھی اسی اصول کی زد میں آتا ہے، مغر بی تہذیب کے پر ستا ر اس طرح کے چو ر دروازوں کی تلا ش میں رہتے ہیں ،کئی با تیں ہما ر ے مشاہدے میں ہیں جو ابتدا ئی طو ر پر کسی حد تک قا بل قبو ل ہو تی ہیں لیکن ترقی کے مرا حل سے گزرتی ہو ئی ناقابل قبو ل بلکہ حرا م کی حد تک پہنچ جا تی ہیں۔ عورتوں کا گا ڑی چلا نا بھی اسی قبیل سے ہے، گا ڑی چلا نے کے دورا ن بے شما ر ایسے مرا حل سے گزر نا پڑتا ہے جو عورت کی نسوا نیت بلکہ اس کی عزت و حرمت کے منافی ہیں ،مثلاً: (1)ڈرائیوری کے لیے نگاہ کو آزادانہ گھما نے کی ضرورت ہو تی ہے ۔
Flag Counter