حا فظ عرا قی اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کی سند کمزور ہے۔ (فیض القدیر) علا مہ طا ہر بن علی ہندی اس طرح کی دیگر روایا ت نقل کر نے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ روا یا ت صحیح نہیں ہیں ۔(تذکرۃ المو ضو عا ت :ص62) علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ضعیف ٹھہرا یا ہے، حا صل کلا م یہ ہےکہ اس طرح کی تمام روایا ت بے کا ر ہیں ۔ (ضعیف الجامع الصغیر :226) نیزاس حدیث میں لفظ خضرۃ کا تر جمہ سبز رنگ نہیں بلکہ سبزہ ہے، چنانچہ علامہ مناوی لکھتے ہیں کہ اس سے مرا د ہر ے بھر ے درخت اور سر سبز کھتیاں ہیں۔ (فیض القدیر :5/232) فر ما ن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوا لہ سے جو روا یت بیان کی گئی ہے اس کے الفاظ یو ں ہیں: سبز ہ ،جا ری پا نی اور خو بصورت چہرے کو دیکھنے سے نگا ہ تیز ہوتی ہے۔ اس روا یت کے الفا ظ ہی اس کے خو د سا ختہ ہو نے کی نشاندہی کر تے ہیں کیوں کہ ایسی نا شا ئستہ با ت حضرات انبیا ء علیہم السلام کے شا یا ن شا ن نہیں ہو تی۔ امام ابن جو زی یہ وضعی روایت بیان کر نے کے بعد لکھتےہیں کہ یہ جھوٹ کا پلندہ ہے ۔(کتاب المو ضو عا ت :1/163) محد ثین کرا م نے وضعی احا دیث معلو م کر نے کا ایک یہ بھی قا عدہ لکھا ہے کہ وہ ایسی گفتگو پر مشتمل ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو کجا ایک عا م نیک سیرت انسا ن بھی اسے بیان کر تے ہو ئے شر ما تا ہے۔ ملا علی قا ری نے اس سلسلہ میں مذکو رہ روایت کو بطو ر مثا ل پیش کیا ہے ۔ (اسرارالمر فو عہ فی الاخبا ر المو ضو عہ :435) علا مہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اگر چہ اس روایت کا دفا ع کیا ہے لیکن وہ اس دفا ع میں نا کا م نظر آتے ہیں کیو ں کہ اس روایت کے جتنے بھی طرق ہیں ان تمام میں کو ئی راوی ضعیف یا مجہول یا متہم با لکذب ضرور پا یا جا تا ہے ۔علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت سند کے لحا ظ سے ضعیف اور متن کے لحاظ سے مو ضو ع ہے، ایسی بے شما ر روایا ت ہیں جو سند اً ضعیف اور متناً مو ضو ع ہو تی ہیں ۔(ضعیفہ :ج 1ص166) طبی لحا ظ سے سر سبز و شا دا ب درخت اور کھیت دیکھنے سے نگا ہ تیز ہو تی ہے لیکن اس کے سا تھ دوسری با توں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح نہیں ہے۔ ہما ر ے ہاں اگر چہ ایک مذہبی گرو ہ نے سبز رنگ کو اپنی شنا ختی علا مت قرار دیا ہے لیکن اس کی بنیا د کو ئی صحیح روا یت نہیں بلکہ بے کار اور خو د سا ختہ احا دیث ہیں ۔(واللہ اعلم با لصوا ب ) سوال۔ملتان سے محمد شفیع دریا فت کر تے ہیں کہ بو قت ضرورت کسی مریض کو خو ن دینا شر عاً کیسا ہے کیا کو ئی غیر محر م کسی عورت کو خو ن دے سکتا ہے ؟ جوا ب۔ مر یض کو بوقت ضرورت خو ن دینا دور حا ضر کا ایک جدید مسئلہ ہے جس کی مثا ل قرون اولیٰ میں نہیں ملتی ،ویسے تو انسا ن کا خو ن حرا م ہے اور یہ حرمت اس کے نجس یا پلید ہو نے کی بنا پر نہیں بلکہ اس کی حرمت اس کے احترا م کے پیش نظر ہے۔ انسا نی خو ن پلید نہیں ہے چو نکہ اللہ تعا لٰی نے ہما ر ے لیے دین اسلا م کو با ر گرا ں نہیں بنا یا بلکہ وہ ہمارے سا تھ آسا نی اور سہولت کا ارادہ رکھے |