Maktaba Wahhabi

463 - 495
کے لیے تشریف لے گئے، روٹی کے ٹکڑے کیے گئے اور ان پر گھی نچو ڑ کر’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پڑھا ،‘‘پھر دس دس آدمیوں کو بلا یا گیا، اس طرح ستر آدمیوں نے وہ کھا نا سیر ہو کر تنا و ل کیا ۔ (صحیح بخا ری :المنا قب 3578) (1)اس حدیث کو امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ ’’علا ما ت النبوۃ فی الاسلام‘‘ یعنی معجزات میں لا ئے ہیں، یقیناً یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا کہ چند ایک روٹی سے ستر، اسی آدمی سیر ہو گئے، یہ ایک قا عدہ ہے کہ معجزہ دلیل نبو ت ہو تا ہے لیکن کسی شر عی حکم کو اس سے ثا بت نہیں کیا جا سکتا، لہذا اس سے ختم کا جوا ز ثا بت کر نا سینہ زوری اور تحکم ہے ۔ (2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور ختم شر یف مخصوص قرآنی سورتوں کو تلا وت نہیں فر ما یا بلکہ روا یا ت میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طعا م ما حضر میں خیرو بر کت کی دعا فر ما ئی جیسا کہ سعد کی روایت میں ہے بلکہ روایات میں وہ الفا ظ بھی منقول ہیں جو بطو ر دعا اد اکیے، چنانچہ نضر بن انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل الفا ظ کہے تھے " بسم اللّٰه اللہم اعظم فیہا البر کۃ‘‘ اللہ کے نا م سے اے اللہ ! اس کھا نے میں بہت زیا دہ بر کت عطا فر ما ۔اس سے معلو م ہو ا کہ آپ نے بطو ر ختم شر یف مخصوص سورتیں نہیں بلکہ خیروبر کت کی دعا فرمائی تھی ۔(فتح البا ری :6/721) (3)اہل خا نہ نے خا ص اہتمام کے سا تھ متنو ع کھا نے تیا ر نہیں کیے تھے کہ ان پر ختم پڑھنا مقصود ہو بلکہ وہاں تو جو کے آٹے کی صرف ایک روٹی تھی جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کی گئی تھی اور اس پر بچا ہو ا گھی نچو ڑا دیا گیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ختم شر یف کے لیے تشریف لا ئے اور نہ ہی اہل خا نہ نے ختم کے لیے خا ص اہتمام کیا تھا، جبکہ ہما ر ے ہا ں دو نو ں طرف سے لا ؤ لشکر اور عمدہ کھانوں کا اہتمام ہو تا ہے ۔ (4) حضرت جا بر رضی اللہ عنہ کے گھر بھی غزوہ خند ق کے مو قع پر اسی قسم کے معجزے کا ظہو ر ہو ا تھا ،وہا ں روٹیوں کے سا تھ گو شت بھی پکا یا گیا تھا ، بعض روایا ت میں ہے کہ آپ نے ہنڈیا میں با بر کت لعا ب دھن ڈا لا تھا، ذرا ختم دینے والے حضرات بھی کھا نے میں تھو ک ڈا لنے کی جسا رت تو کر یں ،پھر دیکھیں کیا تما شہ بنتا ہے ؟ بہر حا ل ہما ر ے نز دیک یہ ختم شر یف کے اضا فے کھا نے پینے کے طو ر طر یقے ہیں اس کے علا وہ کچھ نہیں ہے ۔ سوال۔محمد اسامہ بذر یعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام رنگو ں سے سبز رنگ زیادہ محبو ب تھا ،نیز کیا یہ فر ما ن نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جا ر ی پا نی اور سبز رنگ دیکھنے سے نظر تیز ہو جا تی ہے ۔ جواب۔جن کتا بوں میں مو ضوع روایا ت کو جمع کیا گیا ہے ان میں اس قسم کی روا یا ت بکثر ت مو جو د ہیں ،علا مہ سیو طی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ابن السنی اور ابو نعیم کے حوالہ سے نقل کر نے کے بعد اس پر "ض" کا نشا ن لگا یا ہے، ضعیف ہو نے کی علا مت ہے ۔(جا مع صغیر ) اس کے ضعیف ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ اس روا یت کا مدار قا سم بن مطیب نا می ضعیف راوی پر ہے جسے امام ابن حبا ن نے متروک قرار دیا ہے ۔ (دیوا ن الضعفا ء المتر وکین:ص252) اس لیے قلت روایا ت کے با و جو د نقل وبیان میں بہت غلطیا ں کیا کر تا تھا ۔ (کتا ب المجروحین:203)
Flag Counter